ڈاکٹر بمقابلہ وکیل

ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ حق کے ساتھ نہیں کھڑے تو تاریخ کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ مسجد کے حجرے میں تھے کہ طوائف کے کوٹھے پر‘‘دنیا میں یہ سب سے مشکل کام ہے کہ کیسے پتہ چلایا جائے کہ کون راہِ حق کا مسافرہے اور کون رخشِ باطل پہ سوار عالم کو تہہ تیغ کئے جا رہا ہے۔ہر شخص دعویٰ برحق کا داعی و دعویدار ہے۔اس کا حل ہمیں مولا علی ؓ کے اس فرمان سے مل جاتا ہے کہ ’’حق والے ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں‘‘یا پھر ان کافرمانا ہے کہ اگر آپ کے ساتھ چند لوگ ہیں تو گھبرانا نہیں کیونکہ حق والوں کے ساتھ تھوڑے لوگ ہی ہوتے ہیں۔لیکن ہم ٹھہرے عاصی،ہمیں کیسے پتہ چلے کہ کون حق پرست ہے اور کون اپنے دعوے میں باطل ہے۔ہمیں تب پتہ چلے گا جب ہم جاننے کی کوشش پورے خلوص کے ساتھ کریں گے ۔کیونکہ ہم نے کبھی حق اور حق پرستوں کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔کہ ہم اپنی ضرورتوں اور غرضوں کے بندے ہیں۔حق و باطل کی معرکہ آرائی کو ہر شخصے صداقت کی یقین دہانی کو ثابت کرنے کے لئے پاکستان کے ایک نیشنل ٹی وی پر ایک ڈاکٹر اور ایک وکیل اس قدر واحیاتی کی حد تک آگے چلے گئے کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پایا کہ پوری قوم ان کو دیکھ رہی ہے۔میری مراد ایک ٹاک شو میں محو گفتگو ڈاکٹر افنان اور شیر افضل مروت ہے۔گفتگو کیا لغویات کی ایک پٹاری تھی جس میں جس کے منہ میں جو آہا کہہ ڈالا۔بات منہ تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر دست وگریبان کا تیہ پانچا کچھ زیب نہیں دیتا تھا۔کیونکہ ڈاکٹر اور وکیل کو اپنے اپنے اداروں سے پیشہ ورانہ اعلی ڈگری کا متحمل شخص خیال کیا جاتا ہے۔
ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ہماری قوم میں عدم برداشت کا یہ رویہ کیوں درآیا ہے۔اپنے راہنمائوں کے جھوٹ کو سچ اوردگر کے سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے ہم دلیل سے زیادہ شور اس لئے کرتے ہیں کہ ہماری سوچوں پہ ان کے پہرے ہیں جوجمہوری اقدار اور اخلاقی روایات سے کوسوں دور ہیں بلکہ ان میں سے تو کچھ ملک سے ہی دور بیٹھے ہیں۔میری ذاتی رائے میں دو وجوہات کی بنا پر یہ تماشہ گری ہوتی ہے،ایک ملک میں انصاف کا بول بالا نہیں اور دوسرا قانون کی بالا دستی ۔اگر ان دو پر بھی عمل کر لیاجائے تو کچھ بعید نہیں جمہوریت و فلاح کا نیلگوں آسمان سایہ فگن ہ وجائے۔جیسے کہ ہم اکثر انگریزوں کے انصاف کی مثالیں دیتے تھکتے نہیں۔یہ بات ہے بھی مبنی بر صداقت،گاندھی جی کتاب تلاش حق میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک سکھ گلاب سنکھ کا کسی ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کلرک کے ساتھ جھگڑا ہوگیا۔بات بس اتنی سی تھی کہ ٹکٹ کلرک نے ایک پرانا اور پھٹا ہوا نوٹ لینے سے انکار کردیا تھا۔یہ انکار وجہ نزاع کا باعث بن گیا۔گلاب سنگھ نے شکایات درج کرنے والی کتاب میں اپنی شکائت درج کی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔چند ایام کے بعد گلاب سنگھ کو ایک خط موصول ہوتا ہے جس میں ایک رجسٹری لفافہ بھی ہے۔اس خط کی تحریر کچھ ایسے تھی کہ
’’آپ کی شکائت ہمیں موصول ہو گئی ہے،آپ اپنے قریبی تھانہ جا کر اس کلرک کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کروائیں اور دس دن کے اندر ہمیں رجسڑی لفافہ میں واپس جواب سے مطلع فرمائیں‘‘یونہی کلرک کے باپ کو پتہ چلا فورا چلا آیا اور معافی کی درخوست کرتے ہوئے کہنے لگا My neck is before you weather kill or leave.
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری گردنیں بھی کسی نا کسی سیاسی پارٹی کے ہاتھوں میں میں اور ہمارے نظریات کی قبروں کے وہ مجاور ہیں۔بالکل اسی طرح ڈاکٹر افنان اور شیر افضل مروت کی گردنیں بھی ان کی سیاسی پارٹیوں کے دستِ آہن کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ایسا رویہ غلامی سے کم نہیں کہ غلامی کا اثر انسانی نفسیات پر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ان کی سوچ بقید حیات ہو جاتی ہے۔اگر ایسا نہیں تو ڈاکٹر مسیحا اور وکیل رازدان سمجھے جاتے ہیں۔باشعور شہری اور ذمہ دار افراد خیال کئے جاتے ہیں۔نہ کہ تماشہ گر۔لو کون پو کہتا ہے کہ جب کسی شہر میں چوروں کو حکمران بنتا دیکھو تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں سسٹم کرپٹ یا شہری بے شعور۔میرے خیال میں ہم پاکستانیوں میں دونوں خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں۔حالات و واقعات کو سمجھنے کے لئے فیض کا یہ شعر ہی کافہ ہے۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں۔
لیکن اس سلسلہ میں تو ڈاکٹر اور وکیل ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔اب پتہ چلا کہ وہ جو اپنے آپ کو بلیک بیلٹ کہتے تھے ایف آئی آر درج کرو ادی ہے اور اس میں کہا ہے کہ مجھے زدوکوب کیا گیا اور میں بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔مروت صاحب سے جب سے یہ معرکہ سر کے آئے ہیں وہ اپنے آپ کو انگلش فلموں کے ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔یار بندہ ان دونوں پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھے کہ دنیا میں جگ ہنسائی کروا کے تم لوگوں نے کون سا تیرچلایا ہے۔بیرون ملک رہتے ہوئے مجھے روزانہ پاکستانی حالیہ سیاسی صورت حال سے متعلق کیسے کیسے لوگوں سے کیا کیا باتیں سننے کو ملتی ہیں،خدا پناہ۔لیکن ہمارے سیاسی راہنما بقول غالب
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button