مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری پر فلسطین کا سوال
اقوام متحدہ میں اسرائیلی صدر نیتن ہاہو نے حالیہ تقریر میں سعودی عرب کے ساتھ تاریخی امن معاہدے کے قریب ہونے کا انکشاف کیا۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب خطے کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں یمن، عراق، لبنان، شام تنازع، ایران کا عروج، اسرائیل اور کئی عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا شامل ہے مشرق وسطیٰ میں سفارت کاری کا نازک رقص ایک بار پھر عالمی سطح پر نمایاں ہے کیونکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی صدر کی حالیہ تقریر نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ممکنہ سفارتی پیش رفت کے پس منظر میں دیرینہ مسئلہ فلسطین کے مستقبل پر سنجیدہ سوال اٹھایا ہے سعودی عرب، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں، ویژن 2030 کے منصوبے کے تحت اقتصادی تنوع اور جدید کاری کے وسیع تر ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ اس میں اقتصادی شراکت داری قائم کرنا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا شامل ہے۔ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات، خطے میں سعودی عرب کے ترقیاتی اہداف کے لیے ایک ممکنہ امکان کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
اسرائیل کے بارے میں سعودی عرب کا موقف علاقائی اتحادوں پر اثرات مرتب کرے گا۔ اسرائیل سے صرف چار مہینے میں متحدہ عرب امارات، سوڈان،مراکش اور بحرین کے درمیان تعلقات معمول پر آئے، اسرائیل کے ساتھ کئے جانے والا ابراہیم معاہدہ ان ممالک کے لئے غور و خوض کا باعث بنا سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کا معمول پر آنا مشرق وسطیٰ میں ایک نئے جیو پولیٹیکل بلاک کو جنم دے گا۔ تاہم ان جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے درمیان، فلسطینی کاز کی قسمت کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے عرب ریاستیں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور ریاستی حیثیت کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ اعلامیہ کوئی معاہدہ فلسطین کے لیے اس کی حمایت کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کے سرکاری موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اب بھی وہ یہی چاہتا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کا حل دو ریاستی حل پر مبنی ہونا چاہیے جس میں مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنایا جائے۔ تاہم، کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے گرم جوشی والے تعلقات اس مقصد کے لیے اس کی وابستگی کو کمزور کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کو اسلامی مقدس مقامات اور فلسطینی کاز کے محافظ کے طور پر اپنے تاریخی کردار کے ساتھ اپنے تزویراتی مفادات کو متوازن کرنے کے پیچیدہ چیلنج کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کے موقف میں ممکنہ طور پرکسی بھی قسم کی تبدیلی کو فلسطینیوں کی ریاستی حیثیت، وقار اور انصاف کی امنگوں پر غور کرنا ہوگا۔ سعودی عرب کو اپنے تزویراتی مفادات کی پیروی کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اس نازک راستے پر احتیاط کے ساتھ چلنا اہمیت کا حامل ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ بین الاقوامی سفارت کاری کو مشرق وسطیٰ کے ابھرتے ہوئے منظر نامے میں اسرائیل-فلسطین تنازع کے منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسرائیل مسلم دنیا میں ایک رہنما کے طور پر سعودی عرب کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے سعودی عرب کی فلسطینی کاز کی حمایت کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے، مسلم اکثریتی ممالک میں سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگی دیگر مسلم ممالک کو امتحان میں ڈال سکتی ہے تاہم سعودی عرب کو اس بات کا مکمل احساس و ادراک ہے کہ فی الوقت اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسی ’بڑی چھلانگ‘ فلسطینیوں کو تنہا اور مزید کمزور کرنے کا باعث ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی حالیہ اسرائیلی جارحیت پر انتہائی دلیرانہ موقف اپنایا۔ سعودی عرب روایتی طور پر کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریزاں رہا ہے جس سے اس کے عرب اتحادیوں کو الگ کر دیا جائے یا مسلم دنیا میں ایک رہنما کے طور پر اس کی پوزیشن کو نقصان پہنچے۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر مسلم دنیا منقسم ہے۔ کچھ مسلم اکثریتی ممالک اسرائیل کے ساتھ بہتر تعلقات کے خیال کی حمایت کرتے ہیں، یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کے مخالف ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ ایسے ملک کے ساتھ تعلقات معمول پر آئیں گے جو فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا ذمہ دار ہے۔
مسلم دنیا ایک واحد وجود نہیں ہے ہر ملک اپنی اپنی خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے معاملے پر بھی مختلف آراء ہیں۔ لیکن یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ صورتحال مسلسل بدل رہی ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ کیا سعودی عرب اسرائیل کے بہتر تعلقات فلسطین کے مسئلے پر کسی بڑی پیش رفت کا باعث ہوگی۔ فلسطین پر سعودی عرب کی تبدیلی کے ممکنہ اثرات نمایاں ہیں۔ اگر اسرائیل مسئلہ فلسطین پر ٹھوس رعایتیں دینے پر آمادہ ہے تو اس سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے تاہم امن کا راستہ طویل اور پیچیدہ ہے۔ دو ریاستی حل حاصل کرنے سے پہلے بہت سی رکاوٹیں ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی۔ سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ ایک اور رکاوٹ اسرائیل کی سیاسی صورتحال ہے۔ اسرائیلی حکومت اس وقت دائیں بازو کے اتحاد کی قیادت میں ہے جو دو ریاستی حل کے مخالف ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا موجودہ حکومت وہ رعایتیں دینے پر آمادہ ہوگی جو امن معاہدے کے حصول کے لیے ضروری ہوں گی۔