فاتح مفتوح کو دوست نہیں بناتے

ترقی یافتہ قوموں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس قومیں کس طرح لوگ پیدا ہورے ہیں،یعنی ایل علم،اہل دانش،فلاسفر،جستجو رکھنے اور اپنے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کے جذبہ سے مغلوب افراد۔یقینا ایسی قوم کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا جن کے افراد قومی حمیت وغیرت کا منہ بولتا ثبوت اور وطن کی خاطر دامے درمے سخنے ہمہ وقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہوں۔اور ایسے ممالک اور قومیں جنہیں قحط الرجال کا سامنا ہو،وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بڑی طاقتوں کی غلامی میں پابجولا قریہ وبازار میں چلنے کو حزیمت خیال نہیں کرتیں۔کیونکہ غلامی خود آقا پرور ہوتی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ فاتح کبھی بھی مفتوح کا دوست نہیں ہوتا۔
برائٹ ایک امریکن خاتون جس نے اپنے ذمے غلاموں کو چوری آزاد کروانا لے رکھا تھا اور وہ اس مین کامیاب بھی رہی۔ایک بار اس سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے مشکل کس بات کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے جواب دیا کہ ’’غلاموں کو یہ باور کرانا کہ اب تم آزاد ہو‘‘۔ابن خلدون نے اپنے مشہور زمانہ مقدمہ میں بھی ایسے ہی خیالات کا کھل کا اظہار کیا ہے بلکہ میں تو کبھی کبھار سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہوں کہ ان جیسا دوراندیش شائد ہی تاریخ نے پیدا کیا ہو۔اگر انہیں ماہر سماجیات کہا جاتا ہے تو اس میں رائی برابر بھی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ انہوں نے جو واقعات وحالات اپنے زمانے میں پیش کئے ان تمام سے اب بھی ہمارا واسطہ ہے۔ان کا کہنا کہ کی غلام قوم کبھی بھی اپنی سوچ کی ،تحمل نہیں ہوتی،انہیں ہمیشہ ہی غالب قوم کی تقلید کا شوق ہوتا ہے۔محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہوجاتا ہے۔محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لئے زندہ رہتا ہے۔ایسی صورت حال میں ناکام ریاستوں اور زوال پذیر قوموں میں وہ تمام لوگ پیدا ہوں گے جو افراد کی مذہبی روایات سے کھیلتے ہوئے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔اور ایسے میں لوگوں کے پاس صرف ایک ہی نجات کا ذریعہ رہ جاتا ہے اور وہ ہوتی ہے ہجرت۔جس کا شکار آجکل ہمارا پیارا پاکستان ہے۔آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟کیا غلامی ہی آقا پرور ہوتی ہے یا پھر سیاست پہ قابض افراد لومڑی جیسے چالاک اور بھیڑئے جیسے سفاک ہوتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں جب انسان کی زندگی کا محور محض روٹی کو بنا دیا جائے گا تو پھر انسان روٹی جیسے گول چکر میں ہی ساری زندگی گزار دے گا۔کیونکہ اس کی ذات کا محور روٹی،کپڑا اور مکان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ قومی و عوامی رائے پڑھے لکھے معاشرہ میں تو از خود انسانوں کے اندر اور ان کی تربیت کا حصہ ہوتی ہیں لیکن ہمارے جیسے ممالک میں ان کی ذمہ داری رائے عامہ ہموار کرنے والے اداروں کے ذمہ ہوتی ہے۔جو بدقسمتی سے اس لئے ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں اپنی ناک سے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔جب انہیں اپنی ذات سے آگے بائیس کروڑ عوام نظر آئیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ مشرق سے طلوع ہونے والا خورشیدغریب کی کٹیا کو روشن نہ کرے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ لیڈر وہ ہو جو لیڈ نہ کرے بلکہ راہنمائی کرے جیسے کہ اس ایک واقعہ سے آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ بااصول لوگ کیسے اپنی قوم کی راہنمائی کرتے ہیں۔
جارج واشنگٹن ایک بہترین منتظم سے قبل ایک دلیر جرنیل بھی تھا اس نے فرانس اور انگلینڈ کی جنگ میں پرجوش حصہ لیا۔جب جنگ ختم ہوئی تو انہیں دنوں 1775 میںامریکہ بھی آزادی کی شاہراہ پر قدم رنجہ فرما ہو چکا تھا۔جارج واشنگٹن یونہی جنگ سے فارغ ہوا تو وہ اپنے فارم ہائوس پر اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ گوشہ تنہائی میں جا بسا۔اس کی قوم نے اسے تنہا نہ چھوڑا اور انہیں پہلا صدر منتخب کیا۔پھر دوسری بار بھی وہ امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔اپنے دو ادوار مکمل کرچکنے کے بعد اس نے ایک بارپھر اپنے فارم ہائوس کا رخ کیا اور اپنے پالتو کتوں اور جانوروں کے ساتھ گزربسر کرنے لگا۔ایک بار پھر سر عوام نے ان سے التجا کی کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ بادشاہ بن جائیں یا پھر تاحیات صدر بن کر امریکہ کی خدمت کریں۔لیکن واشنگٹن نے کہا کہ نہیں اب ان افراد کو بھی خدمت کا موقع ملنا چاہئے جو جمہوریت کی بقا کے لئے میرے ساتھ صف بستہ تھے۔یہ کہہ کر انہوں نے تیسری بار صدر بننے سے انکار کردیا۔یہ ہیں اصول اور ملکی بقا اور جمہوریت کی اصل روح۔جو شائد ہمارے ہاں ناپید ہے۔
1963 جان ایک کینیڈی اپنے سیاسی نازک موڑ پر تھا وہ ’’سیاسی حقوق کا بل‘‘کانگریس میں پیش کرنا چاہتا تھا۔یونہی یہ بل پیش ہوا جنوبی ریاستوں سے انہیں لاکھوں ووٹروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑگیا۔اس کے بھائی نے اسے بتایا کہ اگلے الیکشن میں اسے شکست ہو سکتی ہے تو کینیڈی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’اگر مجھے اصولوں کی بنیاد پر شکست ہوتی ہے تو میں یہ شکست قبول کروں گا‘‘ایسے ہی کئی واقعات پڑھنے کے بعد مجھے یقین واثق ہوگیا کہ قدرت بڑی اقوام میں ہی بڑے لوگوںکو پیدا کرتی ہے۔غلام قوموں کے اذہان اپنے گلے سے غلامی کاطوق نکالنے کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔کیونکہ غلامی ان کے شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔جبکہ ہم ایسی ایسی سیاسی روایات کے حامل افراد ہیں کہ لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔بلکہ ایسی ایسی اختراعات کے بانی ہیں جو کہ دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہیں جیسے کہ کرپشن کی مثالیں دنیا کی یونیورسٹیوں میں بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں۔لفافہ جرنلزم،چھانگا مانگا سیاست،ہابرڈ نظام،کک بیکس،مجھے کیوں نکالا،لاڈلا اور نہ جانے کیا کیا؟
لیکن ان سارے عوامل میں اگر کسی کی کمی ہے تو وہ عوام ہیں۔جن کے نام پہ تمام قوانین وآئین بنائے جاتے ہیں،جن کی فلاح کے لئے تمام پراجیکٹس پیش کئے جاتے ہیں،جن کی خدمت ان سب کا فرض ہوتا ہے۔وہی عوام سات دہائیوں بعد بھی بنیادی ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں۔اور برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر،عوام پر بھی بے جا ٹیکسز کا ایک بوجھ ہے جو ان کے کندھے سیدھے اور سر اٹھنے نہیں دیتے۔ارسطو نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ’’قانون مکڑی کا وہ جال ہے جس میں چھوٹے کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں بڑے جانور تو جالاپھاڑ کر نکل جاتے ہیں‘‘۔اچھا ہے عوام کا ساتھ یہ سلوک؟کہ ظلم کی انتہا سے ہی انقلاب برپا ہوتا ہے۔اگر اتنا شعور آجائے تو،وگرنہ فاتح کبھی مفتوح کے دوست نہیں ہوتے اور ملک پاکستان میں فاتح کوئی غیرملکی طاقتیں یا دشمن نہیں اپنے ہی اشرافیہ ہیں جنہیں بس فتح کرنا ہے بھلے اس میں عوام افلاس کی چکی میں پس کر ہی نہ رہ جائیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button