معاہدات کو تسلیم کر کے مارتے ہیں

عصرِحاضرکے معروف شاعر فرحت عباس کی کتاب مزاحمت سے حسبِ حال ایک شعر عرض ہے کہ
مذاکرات کے پھندے لگا کے ہیں رکھتے
معاہدات کو تسلیم کر کے مارتے ہیں
گذشتہ دنوں دہلی انڈیا میں G-20 دنیا کے معاشی ترقی و اقتصادی خوش حالی کے متحمل بیس ممالک کے درمیان ایک سالانہ اجلاس ہوا۔جس میں کم و بیش دنیا کے وہ تمام ممالک شامل ہیں جنہوں نے معاشی،معاشرتی،سیاسی واقتصادی میدان میں اس قدر ترقی حاصل کر رکھی ہے کہ اب انہیں مزید ترقی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے۔جیسے کہ اگر انگلینڈ کی بات کی جائے تو اب انہیں بوڑھا یورپ کہا جانے لگا ہے کیونکہ وہاں پر نوجوان نسل کی تعداد روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے اور بوڑھے لوگوں کی شرح زیادہ ہے۔لہذا انگلینڈ کو دنیا کے مختلف ممالک سے ایسے لوگوں کو بلائے گا جس کی استعداد کار اور قابلیت نسبتا زیادہ ہو۔اسی طرح سے اگر عرب ممالک کی بات کی جائے تو وہ ایک گرم مرطوب خطہ ہے ،دولت کی فراوانی ہے لہذا ایسے ممالک کو ان ممالک سے لیبر لانے کی ضرورت ہوگی جو گرم علاقوں کے رہنے والے ہوں اور سخت گرمی میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔G-20 اجلاس میں بھی ایسے ہی بہت سے معاہدات پر دستخط کئے گئے،کچھ ایم او یوز پر مزید تیزی سے کام کرنے کی اہمیت و ضرورت پر زوردیا گیا۔کچھ معاہدات کو ازسرنو مزید بہتر بنانے کی اہمیت پر بھی دستخط ہوئے لیکن ان تمام معاہدات میں جو سب سے بڑا حیران کن معاہدہ ہوا اس کا نام ہے انڈیا مڈل ایسٹ،یورپ کنیکٹیویٹی کاریڈور۔اگرچہ یہ کہا جاتا ہے بھارت نے یہ معاہدہ بہت ہی خامشی کے ساتھ کرتے ہوئے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا ایسے معاہدات اور منصوبہ بندیوں سے بے خبر ہوتی ہے،کیونکہ دنیا ٹیکنالوجی کی بنا پر اب ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کرچکا ہے اور ایسے ماحول میں کچھ بھی چھپا نہیں رہ سکتا ۔ماسوا چین کے دنیا کی تمام بڑی اقتصادی طاقتوں نے اس میں شمولیت اختیار کی اور بھارت کے پیش کردہ اس منصوبہ کی تائید وحمائت بھی کی کہ ایسے منصوبہ علاقے اور دنیا کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔یورپی یونین کے صدر نے اسے ایک تاریخ ساز دن قرار دیا۔خود ایم بی ایس نے اس کی افتتاحی تقریب میں شامل ہو کر عندیہ دیا کہ سعودی عرب اس منصوبہ میں برابر کا شریک ہے۔
اس معاہدہ میں ایسا کیا ہے کہ دنیا اس کو چین کے پیش کردہ BRI منصوبہ کے ہم پلہ قرار دیتی ہے۔تو دراصل اس معاہدہ میں بھارت نے دو تجارتی راستوں کا انتخاب کیا ہے ایک تو وہی روائتی ریل کا ذریعے سے لیکن دوسرا اہم تجارتی راستی زیر سمندر کو شامل کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور بھارت اسی راستے کے ذریعے سے ڈاٹا لنک کے ذریعے بھارت کو دنیا سے ملائے گا۔اس معاہدہ میں بھارت ریلوے،ڈاٹا لنک،بندرگاہیں،الیکٹریسٹی نیٹ ورک،ہائیڈروجن پائپ ،مواصلات اور گرین ہائیڈروجن پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے اپنی آمدنی کو بڑھانے کی بھرپور کوشش کرے گا کیونکہ اکنامک سروے یہ کہتے ہیں کہ انڈیا اس سارے منصوبہ سے تقریبا چالیس فیصد فائدہ اٹھائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے بھارت کی آمدنی میں چالیس فی صد اضافہ ہو جائے گا۔یہ ایک معاہدہ نہیں ہے بلکہ بھارت کی سیاسی سوچ،معاشی منصوبہ بندی کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کس قدر خاموشی کے ساتھ پوری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔چین کے ساتھ ان کے تعلقات سرحدی تنازعہ کی صورت میں چلتے رہتے ہیں لیکن بھارت نے چین کو شمولیت کی برابر دعوت دی،ترکیہ ایک مسلمان ملک ہے اورطیب اردگان کا جھکائو بھی اسلامی بلاک کی طرف رہا ہے لیکن اس اجلاس میں انہوں نے بھارت کے جنرل اسمبلی میں مستقل نشست کی طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے۔اسی طرح یو اے ای کے تعلقات کو ہمیشہ بھارت نے احترام کی نظر سے دیکھا ہے۔سب سے بڑھ کر اس نے یہ کیا کہ اسرائیل کی Haifa port کو استعمال کر کے ایک لحاظ سے نہر سویز کو ایک طرف کرتے ہوئے اس علاقہ میں پیش آمدہ خطرات کو سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔لہذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بھارت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرتا جس میں کسی قسم کی کوئی سیاسی،معاشی و معاشرتی تعصب ہو بلکہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اپنے آپ کو کبھی کبھار گھٹنوں کے بل بھی لے جاتا ہے شرط یہ ہے کہ انہیں کوئی مالی فائدہ ہوتا ہو۔بھارت کو اس معاہدہ فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان کی مواصلات،استعدادکار،مین پاور،نوجوان نسل کی empowerment خواتین کو روزگار ،ریل اور زراعت میں ترقی ممکن ہو سکے گی۔
ایک ہم ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے معاہدات و مذاکرات کے گرداب میں ہمیشہ ہی پھنسے رہتے ہیں۔کبھی آئی ایم ایف،کبھی ورلڈ بنک تو کبھی عرب ممالک کی امداد۔ایک طرف جی ٹوینٹی ترقی کی شاہراہوں کی کھوج اور تلاش میں دنیا کو مزید سکیڑ رہا ہے ایک طرف ہم ہیں کہ ہر معاہدہ پر جی جی کررہے ہیں کہ کوئی معاہدہ ہو جائے کوئی مذاکرات کامیاب ہو جائیں کہ ہماری معیشت کا پہیہ گردش کرنا شروع ہو جائے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کا معاشی میدان میں مقابلہ کریں یا چلیں بھارت کا ہی مقابلہ کریں تو پھر مذاکرات و معاہدات نہیں بلکہ سنجیدہ اقدامات اور منصوبہ بندیاں کرنا پڑیں گی وگرنہ جو ہو رہا ہے جیسے چل رہا ہے ویسے ہی ہوتا اور چلتا رہے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button