نئے دادا جان ۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان

ویسے آپ حیران ہوں گے کہ دادا جان کیسے نئے یا پرانے ہو سکتے ہیں. بات یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک خاندان میں بہت سے بھائی ہیں.وقتاً فوقتاً ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا گاوں کا حقیقی سربراہ بنتا آ رہا ہے. جو خاندان کا سربراہ بنتا ہے اس کےنام کے ساتھ "دادا جان” لگ جاتا ہے باقی رہ جانے والے اگرچہ سربراہ نہیں ہوتے لیکن پھر بھی خاندان اور علاقہ میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور کسی نہ کسی معاملہ یا اہم کام کی دیکھ بھال کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں.انہیں عموماً نام سے ہی پکارا جاتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی بھی طور کسی کی جرأت نہیں کہ وہ حد ادب پار کرے.گاوں کی سربراہی حاصل کرنے والے کے ساتھ "دادا جان” لگتے ہی اسے وہ اختیارات مل جاتے ہیں کہ دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے خاندان اور ان کے سربراہ ہکے بکے رہ جاتے ہیں گاؤں کے چوہدری، سرپنچ اور دیگر بڑے افراد اگرچہ بڑی ڈینگیں مارتے ہیں لیکن حقیقت میں سارے بڑے فیصلے "دادا جان” کرتے ہیں بچے کا نام رکھنے سے لے کر قبر کی پیمائش تک ان کی مرضی چلتی ہے ہاں گاوں کے کچھ افراد جو دادا جی کے منظور نظر ہوتے ہیں ان کے ٹھاٹھ ذرا الگ ہوتے ہیں. ہم جوں جوں بڑے ہو رہے ہیں ہم یہ تکرار کرتے ہیں کہ دادا جان کا کام یہ نہیں کہ وہ ہر کام میں دخل اندازی کریں. تعمیری کام کو بھی دیکھیں،آمدن کو بھی دیکھیں اور خرچ کو بھی جوڑ توڑ بھی کریں، پنچایت کے اوپر بھی اثر و رسوخ رکھیں. گاوں والے "دادا جان” کے منہ پر کچھ نہ بھی بولیں تو بھی آپس میں کانا پھوسی کرتےاسی وجہ سے نہ دادا جی پسند کرتے ہیں نہ گاؤں کے کچھ افراد کچھ غلط ہو جائے تو سارا نزلہ گاؤں کے موجودہ اور سابقہ سرپنچوں پر پڑتا ہے مجال ہے دادا جان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کے بھی دیکھے. سنا ہے کبھی کبھار ایسی گستاخی کرنے والے یوں غائب ہوتے ہیں کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ. غائب ہونے والوں میں سے واپس لوٹنے والے دوبارہ کسی گستاخی کا سوچتے بھی نہیں.
یوں تو ہر "دادا جی” کی اپنی اپنی
خوبیاں تھی لیکن کچھ عرصہ پہلے آنے والے” نئے دادا جان” قدرے مختلف محسوس ہوتے تھے. وہ حاجی نمازی بھی تھے اور اچھے بھی. قرآن تو ایسے یاد ہے کہ تقریب کوئی بھی ہوموقع کی مناسبت سے آیت پڑھ دیتے ہیں.یوں لگتا تھا کہ اب گاوں کے حالات بدلیں گے دادا جان کیوں کہ "جنگی مہارت” میں ثانی نہیں رکھتے اس لیے یہ گاؤں کی حفاظت کا بیڑا اٹھائیں گے اور ہر کام میں دانت نہ گاڑھنے کی ہماری درینہ خواہش پوری کریں گے لیکن چند ماہ بعد محسوس ہو رہا ہے کہ "نئےدادا جان” بدلے ہیں روایات نہیں. لگ یہی رہا ہے کہ تھوڑے رد و بدل کے ساتھ یہ بھی اپنے اسلاف کی تاریخ دہرائیں گے اب ہم جیسے کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بنانے والوں کو یہ ڈر لاحق ہے کہ جب تاریخ دہرائی جائے گی تو آخر میں نتائج بھی تاریخ کے مطابق ہی نکلیں گے. اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے گاؤں کے حالات ہمیشہ خراب ہوئے ہیں. ہماری پیدائش سے پہلے اور بعد میں بھی جو جو "دادا جان” وارد ہوئے انہوں نے اپنے رعب دبدبہ سے یا اپنے نقارہ بجانے والوں کے بل بوتے پر گاؤں کی بنیاد مضبوط کرنے کے نعرے بلند کیے لیکن وہ خود کو عقل کل سمجھتے رہے اور گاؤں کے دیگر اہم لوگوں کو کھڈے لائن لگاتے رہے اس لیے ہر چند سال بعد پتہ چلتا کہ بنیاد مضبوط ہونے کی بجائے اس میں سے مزید چند اینٹیں کھسک گئی ہیں اور ایک بار پھر بنیاد کی صورتحال پہلے سے بھی نازک ہے. "نئے دادا جان” کی حالیہ بیٹھک چونکہ گاؤں کے تاجروں سے ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے داداؤں کی طرح "جدید گاؤں”, "ابھرتا گاؤں”, "اسلامی گاؤں” یا "سب سے پہلے گاؤں” جیسا ملتا جلتا خواب دکھائیں گے. اندازہ یہ ہے کہ "نئے دادا جان” "ہمارا خوشحال گاؤں” بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں. میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر یہ "اپنا خوشحال گاؤں” منصوبہ کیسے پروان چڑھائیں گے جبکہ دادا جان اور گاؤں کے باسی سب جانتے ہیں کہ یہ وہ جونک ہیں جو گاؤں کی تجارت کو کنٹرول کرتے ہیں پیسے بناتے ہیں اور گاؤں والوں کے اوپر احسان بھی جتاتے ہیں
آپ شاید سوچ رہے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں کوئی سرپنچ نہیں.ایسا نہیں ہے.سرپنچ ہوتے ہیں لیکن کلی یا جزوی طور پر "دادا جان” کی جی حضوری کر کے دن پورے کرتے ہیں. دادا جان کا عہدہ پانے والے کمال دانشمندی سے اپنے نقاروں اور حواریوں کے ساتھ ایسا ماحول قائم رکھتے ہیں کہ سرپنچ بننے والے اور ان کے حواری دادا جان کے گیت گاتے ہیں اور تنقید کرنے والوں کو گاؤں سے باہر پھینکنے یا گاؤں کے اندر قید کرنے کی دلیلیں لیے بیٹھے نظر آتے ہیں. دادا جان حسب تاریخ ایک سرپنچ کو لات رسید کرتے ہیں دوسرا لے آتے ہیں. یوں تقسیم کر کے حکومت کرنے کا یہ کامیاب فارمولا اپنائے ہر دور میں "دادا جان” گاؤں کے سارے طاقتور گھوڑوں کی باگیں اپنے ہاتھوں میں لیے دندناتے پھرتے ہیں.اس بار بھی نقارہ بجانے والوں نے "ہمارا خوشحال گاؤں” کا راگ الاپناشروع کر دیا ہے لیکن گاؤں کی شکست و ریخت کی 75 سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ گاؤں کے چوہدریوں اور سرپنچوں کو باہر نکال کر بنایا جانے والا کوئی بھی تعمیری خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا.گاؤں کے رہنے والوں پر پڑنے والا لگان کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس گاؤں کے لوگوں کی کمر سیدھی نہ ہو پا رہی ہو وہ گاؤں کی تعمیر میں اینٹ کیا لگائیں گے "نئے دادا جان” کے اپنے نئے منصوبے ہیں لیکن وطیرہ پرانا ہے دیکھنا یہ ہے کہ ایک ہی کام ایک ہی طریقے سے کرنے کا اج تک جو نتیجہ نکلا ہے اس بار اس سے مختلف کیسے ہوگا. پنچایت کو کنٹرول کر کے, سرپنچ اور چوہریوں کو اپنے ساتھ ملا کر ,عوام کی مرضی کو خاطر میں نہ لا کر آپ اس گاؤں کو کیسے منفرد گاؤں بنائیں گے؟ جب آپ کی ساری توجہ اس طرف ہوگی تو وہ جو آپ کی اصل اہلیت ہے اور آپ کی اصل زمہ داری ہے اس کا کیا ہوگا؟ اور اس.منصوبہ کا دورانیہ کیا ہوگا ؟دنیا میں جتنے بڑے چھوٹے گاؤں ہیں کیا کسی میں اس طرح خوشحالی آئی ہے اور اگر آئی ہے تو اس میں کتنا وقت لگا ہے؟ یہ وہ حساب کتاب ہے جس کو "نئے دادا جان "فی الوقت اپنے کھسے کی نوک پر دھرتے ہیں لیکن جان کی امان پاؤں تو ان کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ کھسے کی نوک سے عوام کو, سرپنچوں کو, چوہدریوں کو وقتی طور پر تتر بتر کیا جا سکتا ہے گاؤں کو تعمیر نہیں کیا جا سکتا.ٹھوکریں تخریب کاری کرتی ہیں تعمیر نہیں کرتی. "نئے دادا جان” سے گزارش ہے کہ کیوں نہ ہم ایک بار تجربات بند کر کے دیکھیں.کام پھر سے بانٹ لیں آپ گاوں کا دفاع سنبھالیں اور باقی بھی جس کا جو کام ہے وہ اپنا کام کریں.اور لگان دینے والوں کو بھی حق دیں کہ وہ جیسا گاوں چاہتے ہیں ویسا بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں.

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button