ٖفری مائنڈ قوم ۔۔۔ تحریر: مرادعلی شاہد

پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہے جو اپنے رویوں،روایات اور اقدار کے ساتھ ساتھ اپنی حرکتوں سے زیادہ پہچانی جاتی ہے۔گھر کی چھت کیا آسمان بھی سر پہ گرنے والا ہو مجال ہے اپنے سر کو آگے پیچھے کر لے،آسمان کے ساتھ ’’آڈا لگا‘‘کر ضد پکڑ لیتے ہیں،کہ آسمان نے ساڈا کیہہ وگاڑ لینا اے۔واقعی ہوتا بھی ایسے ہی ہے۔کچھ پاکستانیوں کو تو ’’فری(مفت)‘‘ کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ وہ فری کے کھانے کے لئے کسی کے ساتھ بھی فری ہو جاتے ہیں۔ان کے فری مائنڈ ہونے کی بنا پر ہی ایسے لوگوں نے اپنا قومی نعرہ بنا رکھا ہے کہ ’’عقل نئیں تے موجاں ای موجاں،عقل ہووے تھے سوچاں ای سوچاں‘‘

ایک پرانے کلاس فیلو سے عرصہ دراز بعد ملاقات ہوئی تو از راہ رسم وراہ پوچھ لیا آجکل کی اکرتے ہو،کہنے لگے وہی جو پہلے کرتا تھا یعنی ؟یعنی کہ کچھ نہیں۔اچھا تو کچھ کیا کرو۔بڑی لاپرواہی سے جواب دیا کہ تم نے کیا کر لیا؟اچھا ایسے لوگوں کی سوچ بڑی زبردست ہوتی ہے اگر کوئی ان سے پوچھ لے کہ ٹائم کیا ہوا ہے؟تو وقت بتانے کی بجائے جواب دیں گے،ٹائم کو کیا ہونا ہے لوگوں کا بُرا اور میرا اچھا چل رہا ہے۔یار میں نے گھڑی والے ٹائم کا پوچھا تھا،اچھا وہ ایک بج کر تیس منٹ۔پاس گھڑا شخص اگر مذاق میں بھی کہہ دے کہ آپ کی گھڑی کا ٹائم درست نہیں ہے تو اس کے ساتھ شرط باندھ لیتے ہیں کہ اگر میری گھڑی کا وقت غلط ہو تو ابھی سب کے سامنے اینٹ مار کر اپنی گھڑی توڑ دوں گا وگرنہ تمہیں شام کا کھانا کھلانا پڑے گا۔اور شومئی قسمت وہ شام کا کھانا اسی کی پاکٹ سے کھارہا ہوتا ہے۔ حکیم جالینوس کا کہنا تھا کہ قبض ام الامراض ہے یعنی ستر بیماریوں کی ماں،پاکستانیوں کی نفسیات کو اگر دیکھیں تو چہرہ کے تاثرات سے محسوس ہوگا کہ ہر بندہ جیسے قبض کا شکار ہو ۔چہرے کے بُرے تاثرات سے ہرگز کسی کو یہ پوچھنے کی جسارت نہ کریں کہ کیا آپ قبض کی مرض کا شکار ہیں وگرنہ آپ کو بھی میری طرح ندامت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہوا یوں کہ ایک بار میں نے اپنے ایک فیصل آبادی دوست کو پریشان دیکھا تو پوچھ لیا کہ کیا آپ کو قبض تو نہیںہے ،کہنے لگا ہاں قبض تو ہے لیکن مجھے صبح سے یہ سوچ پریشان کئے ہوئے ہے کہ جب انسان کو قبض ہوتی ہے تو کھایا ہوا کھانا کہاں جاتا ہے۔اچھا بات فیصل آباد کی نہیں کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ ملک کا ہر شہری مائنڈ فری ہے یعنی سوچے سمجھے بغیر

ہی جو مائننڈ میں آیا کہہ دیا۔فیصل آباد میں ایک بار ریڑھی والے پوچھا کہ ’’آم کیسے لگائے ہیں‘‘تو کہنے لگا’’سیدھے کر کے‘‘۔یہی سوال ایک بار ملتان جسے آموں کا شہر کہا جاتا ہے ایک ریڑھی والے سے کیا کہ ’’آم کیسے ہیں ؟ تو جواب ملا کہ ’’گرم ہیں‘‘۔آپ اگر مشاہدہ کریں تو آپ محسوس کریں گے جیسے پوری قوم کو ایک ہی فن آتا ہے اور وہ ہے فنِ مزاح۔فقیر سے ریڑھی والا اور رکشے والے سے سیاستدان سب کے سب صرف ایک فن میں مشاق دکھائی دیتے ہیں اور وہ ہے مذاق ہی مذاق میں دوسرے کی ۔۔۔۔ایک کر دینا۔اپنے مشاہدے میں آنے والے چند فری مائنڈ لوگوں مائنڈ فری باتیں

پڑھئے اور سر دھنئے۔اگر سبزی والے سے پوچھیں کہ ٹماٹر کیسے دیئے ہیں تو جواب ملے گا’’تول کے‘‘۔اچھا کریلے کیسے ہیں؟’’کڑوے‘‘۔پیاز کا کیا ’’حساب ‘‘ہے۔وہی جو آجکل انگریزی کا ہے۔توری کیسی ہے،جواب آئیگا ،کل سے بیمار ہے۔رکشے والے سے ہاتھ دے کر پوچھ لیں جگہ ہے تو بولے گا جگہ بیچ کر تو رکشہ لیا ہے اب کیا رکشہ بیچ کر جگہ لوں تمہارے بیٹھنے کے لئے؟اس جواب کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ رکشے کے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے آہستہ چلو قوم سو رہی ہے۔فروٹ کی ریڑھی والے بچے سے پوچھ لیں کہ کیلے کیسے دیئے ہیں تو کہے گا’’چھلکے کے ساتھ‘‘۔

مجھے یاد ہے ایک بار میں نے خربوزہ والے سے پوچھ لیا کہ’’ میٹھے ‘‘ہیں کیا؟تو کہنے لگا کہ نہیں خربوزے ہیں۔اور میٹھے بیچنے والے سے پوچھا کہ کڑوے تو نہیں تو کہنے لگا کہ نہیں ’’مٹھے‘‘ہیں۔دہی بڑے والے سے جا کر کہیں کہ ایک پلیٹ دینا تو وہ خالی پلیٹ ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔پان والے سے کہیں کہ چونا زیاد ہ لگانا تو وہ بھی فل ماحول میں جواب دے گا’’کس کو لگانا ہے‘‘۔سردی کی راتوں میں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں معصوم بچے انڈے بیچ رہے ہوتے ہیں ایک بار میرے ایک دوست نے رات کے بارہ بجے کے قریب ایک بچے کو انڈے بیچتے دیکھا تو ازراہِ ہمدردی اسے کہا

کہ ’’سو100 ‘‘کے انڈے دینا،تو بچے نے ہنستے ہوئے ہمیں لاجواب کردیا کہ بھائی جان سو کر نہیں میں تو جاگ کر انڈے دونگا۔کسی جوتوں والی دوکان میں جا کر پوچھ لیں کہ ’’ایک نمبر جوتا ملے گا‘‘دوکان پر کام کرنے والا شاگرد بول پڑتا ہے پہننے والا یا بیوی سے کھانے والا۔اور اگر آپ کسی شو سٹور سے جوتا خرید کر لے گئے ہیں اور وہ آپ کے پائوں کو تنگ کرتا ہو،بدقسمتی سے آپ شکائت لے کر جوتے والی دوکان پہ جا کر شکائت کریں کہ بھائی جوتا تنگ ہے تو دوکاندار سے قبل ہی ’’چھوٹا‘‘ آپ کی بات اچک لے گا کہ سر میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ جوتا وہی خریدیں جسے

گھر سے بھاگتے ہوئے پہننا آسان ہو۔اور تو اور بر لب سڑک بیٹھے نجومی سے اگر آپ اپنی بپتا سنائیں کہ بابا جی میرے خواب تو ادھورے ہی رہ گئے ہیں اور جوانی گزرتی جا رہی ہے تو وہ مسئلہ کا حل بتانے کی بجائے مشورہ دے گا کہ ’’پھر سے سو جائو ،ویسے بھی ساری قوم خواب خرگوش میں ہے۔ایسا رویہ اس وقت تک ٹھیک ہوتا ہے جب تک آپ پر ذمہ داری نہ ہو ،جب ذمہ داری پڑ جائے تو سوتے ہوئے نہیں بلکہ کھلی آنکھوں خواب دیکھنا چاہئے اور اس کی تعبیر کے لئے دن رات ایک کر دینا چاہئے۔اسی سے ہماری قوم کا مستقبل وابستہ ہے۔اس لئے ہمیں فری مائنڈ ہو کر نہیں بلکہ مائنڈ کو فری کر کے اپنے اوراپنے ملک کے مستقبل کا سوچنا ہے۔تاکہ قائد واقبال کے خواب کو سچ کر دکھائیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button