ہوشیار باش ۔۔۔ شیر محمد اعوان

اسٹیبلشمنٹ ہر بار پرانی سیاسی قبر کو جھاڑ پونچھ کے نیا کتبہ لگاتی ہے اور عوام کو فاتحہ پر لگا دیتی ہے.پہلے صرف سیاستدانوں کو عوام کی نظر میں نکھٹو دکھایا جاتا تھا مگر اب کے واردات ڈالنے والے خود بھی واردارتی پکارے جا رہے ہیں. اور یہی وہ مڑوڑ ہیں جو ایسٹیبلشمنٹ اینڈ کمپنی کو بے چین کیے ہوئے ہیں. یہ پھر سے نئی واردات کیلیے پر تول رہے ہیں. اس بار ظاہراً واردات آسان نظر آتی ہے. اسکی وجہ بلا شبہ خستہ حال معیشت،بے قابو منہگائی اور گورنس کا ناپید ہونا ہے. جب گھر میں آگ لگتی ہے تو انسان جس حالت میں ہوتا ہے اسی میں باہر آ جاتا ہے. اس حکومت کو گھر بھیجنے کیلیے سیلیکٹرز کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا (انکے خیال میں). سیاسی مخالفین بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے میں راضی ہیں.لیکن لگتا یوں ہے حکومت، حزب اختلاف اور عوام سب کے ساتھ پھر ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہے. اور ایسا ہاتھ ہونے والا ہے کہ سب. ہاتھ ملتے رہ جائیں گے. رنگ روڈ، فارن فنڈنگ کیس میں نئے اکاونٹس کا اضافہ اور ترین گردی محض اتفاق نہیں. رنگ روڈ ایک بڑا سکینڈل ہے لیکن اس سکینڈل کو سامنے لا کر کچھ دوسرے کاموں سے نظریں ہٹا دی گئی.اور زلفی بخاری کو سائیڈ لائن کر کے مزید تڑکا لگایا گیا.کیونکہ احتساب اور شفافیت کا حال یہ ہے کہ ادھر ایک اسکینڈل پر تحقیق کی یقین دہانیاں ہیں اور دوسری طرف سینکڑوں غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیوں کو قانونی چھتری مہیا کی گئی ہے۔

فارن فنڈنگ کیس کی تلوار ویسے ہی طویل عرصہ سے حکومت کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔شازو نادر اگر کسی معاملے پر حکومت پر پرزے نکالنے لگے تو ایک دو نئے اکاونٹ کا اضافہ خبروں کی زینت بنتے ہی حکومت خواب خرگوش ہو جاتی ہے. جہاں تک ترین کا معاملہ ہے تو وہ اتنا سادہ ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ اس واردات اور وارداتیوں سے خوب واقف ہے. ترین گروپ سے ملاقات سے قبل وزیر اعظم پاکستان کی جہانگیر ترین سے ون آن ون خفیہ ملاقات اور پھر ترین گروپ کے گال تسلیوں سے سہلانے تک معاملات اور نہج پر تھے. اس وقت یہ خیال تھا کہ چیزوں کو بہتر کر کے سیاسی استحکام اور ریفارمز کی بحث بڑھائی جائے اور بجٹ کے بعد ترقیاتی پیکجز دے کر عوام کے غصہ کو دبایا جائے. لیکن فارن آفس کی دھلائی، سعودی عرب کا دورہ اور شہباز شریف کا معاملہ آنے کے بعد حالات کچھ بدلنا شروع ہوئے ہیں. ایک تو ملک کے عقل کل اور اپنی دانست میں خود کو ملک کا والی سمجھنے والے ذرا بھی چوں چراں پسند نہیں کرتے. دوسرا خان صاحب کی تین سال کی "جی حضوری” نے بھی مزید عادتیں خراب کر دی ہیں.چونکہ ان دانش وروں نےتہیہ کیا ہوا ہے غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا اور تجربات جاری رکھنے ہیں.اس لیے مستقبل کیلیے پھر بڑے پیمانے پر نئی سیاسی شطرنج بچھانے کا ارادہ ہے.اور اگر سوشل میڈیا پر چھڑ جانے والی بحث کا بغور جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ واردات فی الوقت کامیاب ہے۔

عوام یہ تو جانتے ہین کہ ترین اور مافیا کو نہ چھوڑنے والے نعروں میں جان نہیں ہے. کیونکہ ایک ڈیڑھ سال میں چینی کیس نے کوئی رس نہیں گھولا.مگر شاید اس بات سے لا علم ہو کہ ایک پیج کے پرچار کے باوجود موجودہ سیاسی رسہ کشی کیونکر ہے. اسکی دو ممکنہ صورتیں ہیں. ایک یہ کہ کچھ چیزوں پر خان صاحب کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے. مگر حقیقت میں اس کا امکان تین سالہ تاریخ کی "جی حضوری” کی بنیاد پر انتہائی کم ہے.دوسرا پہلو جس کا امکان زیادہ ہے کہ ایسٹیبلشمنٹ ڈبل گیم کھیل رہی ہے. ایک طرف ترین کو پروموٹ کر کے پنجاب میں ایک نیا پریشر گروپ قائم کیا جا رہا ہے. جس کو الیکشن میں بھی او ر ویسے بھی جب چاہے جہاں چاہیں استعمال کیا جا سکے اور ساتھ ہی معاشی بدحالی کی وجہ سے حکومت کو سائیڈ لائن کیا جائے اور اس ڈبل گیم کا دوسرا حصہ یہ کہ اس سے تنگ آ کے خان صاحب اسمبلیاں توڑیں اور ووٹر کی نظر میں سرخرو ہو جائیں. اگر اسمبلیاں نہ بھی توڑیں تو بھی اس طرح پریشر گروپ کو فرنٹ پر رکھ کر گھر بھیجنے سے سے لوگ منہگائی اور معاشی بد حالی بھول جائیں گے اور سیاسی ورکر سب کچھ بھلا کے خان صاحب کے ساتھ کھڑا ہو گا. یوں دو چار سال بعد ایسٹیبلشمنٹ دوبارہ اپنی بندوق انکے کندھے پر رکھنے کی پوزیشن میں ہو گی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button