شہادت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ ؓ ۔۔۔ تحریر: میر افسر امان
علی نام،ابوالحسن اور ابو تراب کنیت حیدر( شیر) والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ ؓ تھا۔ ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچازاد بھائی تھے۔خاندانِ ہاشم کو عرب اور قبیلہ قریش میں وقعت و عظمت حاصل تھی۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے والد ابو طالب مکہ کے ذی اثر بزرگ سردار تھے ۔رسولؐاللہ نے ان ہی کی آخوش، شفقت میں پرورش پائی تھی۔رسولؐاللہ نے ان ہی کی حمایت سے دعوت حق کا اعلان کیا تھا۔اس پشت پناہی اور حمایت کی وجہ سے ابوطالب اور ان کے خاندان کو مشرکین نے طرح طرح سے تکلیفیں پہنچائیں تھیں۔ایک گھاٹی شہب ابوطالب میں تین سال تک
محصور کر دیے گئے۔کاروبار بند ،شادی بیاہ کے تعلقات تک منقطع کر لئے گئے۔ کھاناپینا تک بند کر دیا۔ مگر اس نیک طینت بزرگ نے آخری لمحہ حیات تک اپنے عزیز بھتیجے کے سرسے دست شفقت نہ اُٹھایا۔ اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ ان کا نام شکر گزاری اور احسان مندی کے ساتھ لیا جائے گا۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی کفالت رسولؐاللہ نے کی تھی۔حضرت علیؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میںسے تھے۔ جب مشرکین مکہ نے رسولؐاللہ کو قتل کا منصوبہ بنایا اور رسولؐ اللہ نے اللہ کے حکم سے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو لیٹنے کا حکم دیا تھا۔ ان کی عمر اس وقت ۲۲ سال کی تھی۔ جب صبح ہوئی تو مشرکین نے دیکھا کہ رسولؐ اللہ کہ جگہ ان کا ایک جان نثار سربکف سو رہا ہے۔ آپ ؓغزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ آپؓ کے ہاتھ میں جھنڈا تھا۔ جب جنگ میں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تودعوت مبارزہ ہوئی۔ مسلمانوں کی طرف سے تین انصاری آگے بڑھے ۔ان کانام معلوم کیا گیا مگر کافروں نے ان سے لڑنے سے انکار کر دیا گیااور کہا کہ ہمارے ہمسر آدمی بھیجو۔ اس پر رسولؐ اللہ کے حکم پر حمزہؓ،علیؓاور عبیدہؓ میدان میں آئے۔ حضرت علیؓ نے ولید کو ایک ہی وار میں قتل کر دیا۔اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی۔۲ ہجری میں حضرت فاطمہؓ سے نکاح ہوا۔غزوہ احد ، غزوہ خندق،اور غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور دشمن کے امیر عسکر کو قتل کیا۔ بنو قریظہ اور بنو سعد کے معرکوں میں شریک رہے اور خیبر کو بھی فتح کیا۔یہودیوں کے سردار مرحب کو بھی آپ ؓنے قتل کیا تھا۔ ۹ ہجری میں جنگ تبوک پر جاتے ہوئے آپؐ حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اہل بیعت کی حفاظت کے لیے
چھوڑ گئے تھے اور رسولؐ اللہ نے فرمایاتھا کہ میرے نزدیک تمہارا رشتہ ہارونؑ اور موسیٰؑ کا ہے۔حضرت علی ؓ کی کوشش سے یمن کے لوگ اور قبیلہ ہمدان مسلمان ہوا۔ ۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے دن دوپہر کے وقت رسولؐاللہ نے جانثاروں کو اپنی مفارقت کا داغ دیا ۔رسولؐاللہ کے غسل تجہیزوتکفین کے تمام مراسم حضرت علیؓ کے ہاتھوں ہوئے۔سقیفہ بنو ساعدہ کی مجلس میں تمام اہل مدینہ نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی۔ حضرت علیؓ حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد بیعت کی۔توقف کی وجہ حضرت فاطمہ کا غم تھا۔حضرت عثمانؓ کے شہادت کے تین دن بعدمسندِ خلافت خالی رہی۔ لیکن آخر میں مہاجرین اور انصار کے
اصرار پر خلافت کا با ر اُٹھایا۔۱۲؍ ذی الحجہ دوشنبہ کے دن مسجد نبویؐ میں جناب حضرت علیؓ کے داست اقدس پر بیعت ہوئی۔ خلافت چار سال نو ماہ رہی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت ے قصاص پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓام المومنین اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگ جمل غلط فہمی، حضرت عثمان کے قاتلوں اور سبائیوں کی سازش کی وجہ سے جنگ ہوئی۔ جنگ میں حضرت علیؓ کو فتح ہوئی تو ام المومنینؓ کے پاس گئے ان کی خیریت معلوم کی۔ پھر ان کے بھائی محمد بن ابی بکر ؓ اور بصرہ کی چالیس شریف و معزز خواتین کو مدینہ پہنچانے کے لیے ساتھ کیا۔ رخصت کرنے خود چند میل تک ساتھ گئے۔ ایک منزل تک
اپنے صاحبزادوں کو مشائعت کے لیے بھیجا۔ یہ ہے شان ہمارے بزرگوں کہ کہ جنگ دوران بھی ایک دوسرے پر مہربان تھے۔حضرت علیؓ کا پورا زمانہ جنگ اور شورش کی نذر ہوا تھا۔ پانچ سالہ مدت میں حضرت علیؓ کوو ایک لمحہ بھی سکون و اطمینان کا نصیب نہ ہوا۔ اس لیے فتوحات نہ ہو سکیں۔ ملکی انتظام کے لیے بھی فرصت نہ مل سکی۔ پھر بھی آپؓ نے تحمل،استقلال اور سلامت روی کے ساتھ معامعلات کا مقابلہ کیا۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ سے کہا تھا کہ آپ سے پہلے شیخین ؓکے دور میں بہت فتوحات ہوئیں۔ آپ کے دور میں کچھ نہیں ہوا۔آپ نے فرمایا میں ان کا مشیر تھا اور آپ
لوگ میرے مشیر ہو۔ ملکی نظم و نسق میں حضرت عمرؓ کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے۔ایک دفعہ نجران کے یہودیوں نے( جنہیں حضرت عمرؓ نے حجاز سے نجران آباد کیا تھا) درخواست کی کہ انہیں واپس اپنے وطن میں آباد ہونے دیا جائے ۔مگر حضرت علیؓ نے صاف انکارکردیا اور کہا کہ حضرت عمرؓ سے زیادہ کون صحیح الرائے ہو سکتا ہے۔عمال کی نگرانی کا خاص اہتمام مدنظر رکھا تھا۔ انہیں مقرر کرتے وقت نہایت مفید اور گران بہا نصائح کرتے تھے۔حضرت علی ؓ نے صیغہ محاصل میں خاص اصلاحات کیں۔جنگلات کو محاصل میں شامل کیا۔عہد نبویؐ میں گھوڑے زکوٰۃ سے مستثنٰی تھے جس کو اپنے دور
میںبرقرار رکھا۔ بیعت المال کے دروازے غربا اور مساکین کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ فوجی انتظامات میں حضرت علیؓ خود ماہر تھے۔ شام کی سرحد پر کافی چوکیاں قائم کی ۔ جنگی مقصد کے لئے دریائے فرات کا پل تعمیر کیا۔ ایران اورآرمینہ میں بعض نو مسلم عیسائی اور مرتد ہو گئے تھے۔ حضرت علیؓ نے نہایت سختی کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور ان میں اکثر تائب ہو کر پھر دائرہ اسلام داخل ہو گئے۔حضرت علیؓ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی سختی کے ساتھ خیال رکھا۔ مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں۔ جرم کے حساب سے نئی سزائیں تجویز کیں۔ حضرت علی ؓ کو بچپن ہی سے درسِ نبوت میں تعلیم
و تربیت حاصل کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا۔ صبح روزانہ رسولؐ ؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ اکثر سفر میں رسولؐ اللہ کے ساتھ ہوتے تھے۔ فضل و کمال کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے مسح علی الخفین کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا حضرت علی ؓ سے معلوم کرو۔ کیونکہ حضرت علیؓ رسولؐ اللہ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔ اسلام کے علوم و معارف کا اصل سر چشمہ قرآن پاک ہے۔ حضرت علی ؓ اس سر چشمہ سے پوری طرح سیراب تھے ۔ رسولؐ اللہ کی زندگی میں قرآن یاد کر لیا تھا۔ اس کی ایک ایک آیات کے شان نزول سے بھی واقف تھے۔حضرت علی ؓ
علم حدیث کے ماہر تھے۔ آپؓ سے ۵۸۶ حدیثین مروی ہیں ۔آپؓ کو فقہ و اجتہاد میں بھی کامل دستگا ہ حاصل تھی۔ تقریر و خطابت میں آپ ؓکو خدا داد ملکہ حاصل تھا۔آپؓ کی طرف بہت سے اشعار بھی منسوب ہیں۔علم نحو کی بنیاد آپؓ کے دست مبارک سے رکھی گئی ۔آپ ؓ کی زبان کبھی بھی شرک و کفر سے آلودہ نہ ہوئی۔ آپؓ امین اورصادق تھے۔ جب رسولؐاللہ نے ہجرت فرمائی تو امانتیں آپ ؓ کے سپرد فرمائی۔آپؓ نہایت عبادت گزار بندے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ ؓ بڑے روزہ دار عبادت گزار تھے۔زبیر بن سعید قریشی ؓ کہتے ہیں میں نے کسی ہاشمی کو نہیں دیکھا جو آپ ؓ سے زیادہ خدا کا عبادت گزار ہو۔آپؓ نے کبھی کسی سائل کو واپس نہیں کیا۔ سادگی اور تواضع آپؓ کی دستار فضیلت کا سب سے خوش نما طرہ تھا۔شجاعت و بسالت آپ ؓ کا مخصوص وصف تھا۔ حضرت علی ؓ کی خلافت چار سال نو ماہ رہی۔ابن مُلجم خارجی کے ہاتھوں 40 ھ میںشہادت پائی۔ اس وقت ان کی عمر۶۳ سال تھی۔