اردو اخبارات رسالہ جات اور لکھاری تاریخ کے آئینے میں

اردو صحافت و ادب کی بنیادوں میں شامل نایاب لکھاریوں کے نام اور کام
اردو صحافت کی تاریخ قیام پاکستان سے پہلے کی ہے یعنی کہ آزادی ہندوپاک سے پہلے شروع ہوئی تھی ہندوستان میں صحافت کی تاریخ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ ہے ایسٹ انڈیا کمپنی میں جیمس آگسٹس ہیکی جو طباعت سے کام سے وابستہ تھا اس نے ہندوستان کی زمین پرصحافت کی ابتدا کرتے ہوئے ہیکز بنگال گیزٹ کے نام سے ایک اخبار 1780میں جاری کیا چار صفات پر مشتمل اس اخبار نے کلکتہ کی سیاسی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی حکومت نے اس کی خبروں کی وجہ سے اس کے اشاعت خانے اپنی تحویل میں لے لیے اور ہیکز گیزٹ مارچ 1782میں بند ہو گیااس کے دس ماہ بعد بی میسنگ کی ادارت میں انڈیا گیزٹ نکلا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے کئی اخبار نکلنے شروع ہو گے جو انگریزی فارسی بنگالی زبانوں پر مشتمل تھے مگر ہمارا موضوع اردو صحافت ہے جیسے دو سو سال سے زائد ہو چکے ہیں صحافت عربی زبان کے لفظ صحف سے ماخوز ہے جس نے معنی صفحہ کتاب یا رسالہ اور صحافی کے ہیں ۔اردو کا پہلاہفتہ وار اخبار جام جہاں نما 27مارچ 1822میں کلکتہ سے شائع ہواجو پوری طرح اردو کا اخبار نہیں تھا کیونکہ اس میں فارسی کے مضمون بھی شائع ہوتے تھے جام جہاں نما کے مالک ہری ہردت ایڈیٹر مدیرمنشی سدا سکھ لال تھے اردو کے اشتراک سے یہ پہلا مطبوعہ ہفت روزہ اخبار پانچ سال آٹھ ماہ جاری رہنے کے بعد23جنوری 1828کو بند ہو گیا تھا ۔ہندوستان سے جوسوفیصد اردو کا پہلااخبار1836میں شائع ہوا وہ دہلی اردواخبار تھاجس کے ایڈیٹر مدیرمولوی محمد باقر تھے جواردو کے نامور ادیب مولانا محمد حسین آزاد کے والد تھے ۔12جولائی 1857میں اس کا نام بدل کر اخبار الظفر رکھ دیا گیا ۔
اس سے پہلے انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی اخبارسلطان الاکبر،سراج الاکبر،ہفتہ وارصادق الاخبار بہاولپور وغیرہ شائع ہوتے تھے ۔محمد باقر دہلی کالج میں پریس کے نگران مقررہوئے اسی دوران انگریزی اخبار کے مالک پرنسپل ٹیلر نے پریس بیچنے کی خواہش کی تو مولوی محمد باقر نے اسے خرید لیا۔ 1857میںدہلی انقلابی بغاوت کے موقع پر مولوی باقر نے خود تمام مقامات پر پہنچ کر کوریج کی اور رپورٹ شائع کی اسی موقع پر دہلی اردو اخبار کا نام اخبار الظفر رکھ دیا گیا تاکہ تمام علم بغاوت بلند کرنے والے انقلابی باغی آزادی کے محور بن کر آگے بڑھتے رہیںان کی حوصلہ افزائی وترجمانی میں نظمیںاور تحریروں جوشیلے انداز میں پیش کرکے تحریک آزادی کو تقویت دی جس کے نتیجے میںانہیں انگریز حکومت نے توپ سے اُڑا دیا تھااس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو صحافت کے ڈی این اے میں ہی جھوٹ و غلامی سے بغاوت کرکے حق کے ساتھ کھڑا ہونا شامل ہے آئیے اردو اخبارات کی بنیاد سے آگے بڑھتے ہوئے ان کے نام کام اور مقام کے بارے میں مزید آگہی لیتے ہیں
ہفت روزہ اخباراودھ پنچ
منشی سجاد حسین نے یہ اردو اخبارنکالا جس کا نام اودھ پنچ1877لکھنو سے لندن پنچ کی طرز پرشائع کیا جس کے ایڈیٹر و مدیر کے عہدے پررتن ناتھ سرشارر،منشی سجاد حسین،مولانا عبدالحلیم شر رفائزرہے اردو کے مزاحیہ مضامین کی ابتدا بھی اسی اخبار اودھ پنچ سے ہوئی جو 1912تک 35سال شائع ہوتا رہا جس کی مقبولیت و طرز سے متاثر ہو کر کئی اخبار پنچ نام لگا کر نکلے سرپنچ ہندپنجاب پنچ لاہور پنچ کلکتہ پنچ انڈیا پنچ بنگال پنچ کشمیر پنچ وغیرہ وغیرہ۔اودھ پنچ کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ اس کے مدیر منشی سجادحسین نے پہلے سال میں ہی ایسے ایسے سحر البیان جادونگار اہل قلم ڈھونڈنکالے جو اردو ادب کے آسمان پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے جس میں مچھو بیگ ستم ظریف ۔منشی جوالا پرشاد برق۔ تربھوناتھ ہجر۔سید محمد آزاد ۔منشی احمد علی شوق ۔احمد علی کسمنڈوی۔ اکبر آلہ آبادی جیسے نام قابل اہمیت تھے ۔اودھ پنچ کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین نے عوامی پزیرائی میں کھلے خط اور بربستہ مضامین کے سلسلے کی بھی بنیاد رکھی ان کی اپنی تحریروں میں شگفتہ مزاح تھا ۔مچھو بیگ ستم ظریف نے واقعات اور مناظر کولکھنوکی ٹکسالی زبان سے دلکش مزاحیہ اندازسے قارئین کو لطف اندوز کرنے والے مضمون کو قلمبند کیا ۔منشی جوالا پرشاد برق ایک باشعور ادیب تھے جنہوں نے انگریزوں کی حکومت کے خلاف مزاحیہ و طنزیہ مضامین لکھے جیسے البرت بل جوڈیشنل کمشنری ۔تربھوناتھ ہجر نے اپنے زمانے کی معاشرتی زندگی کی ظریفانہ انداز میں قلمی تصویر کشی کی ہولی کی بہاریں اور محرم الحرام ان کے دلچسپ مضامین تھے ۔
دوسرے اخبار خاص طور پر منشی نول کشورکے اودھ اخبار سے اس کی نوک جھونگ چلتی رہتی تھی اودھ پنچ اخبار 1912میں بند ہو گیا تھا منشی سجاد حید ر 1856میں کاکوری میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام منشی منصور علی تھا جو ڈپٹی کلکٹر تھے بعد میں حیدرآباد کے سول جج ہوئے منشی سجاد حسین 1887میں کانگرس میں شامل ہوئے اورآخر تک سرگرم رکن رہے ۔1904میںفالج کا اٹیک ہوا اور 22جنوری 1915کو یہ آفتاب مزاح وظرافت ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا منشی سجاد حسین اردوصحافت میں ظرافت کے بابا آدم تھے طنزو مزاح وظرافت کے وہ گلشن تھے جنہوں نے اپنے بعد کئی پھول مطالعے کے جہان میں مہکنے کو چھوڑے جو انہیں پڑھ پڑھ کر لکھنے کے فن سے آشنا ہوئے ان کی تحریروں میں آزاد خیالی بے باکی صاف گوئی کی وہ جھلک تھی جیسے پڑھنے والے تادیر اثر میں رہتے روزمرہ محاورات کے ساتھ ضرب المثال وتمثیلات کی چاشنی حسن قلم تھی انہوں نے اردو ناول نویسی کے نقائص دور کرنے کی طرف خاص توجہ دی اور ان میں منفرد حسن سے منظر کشی کی وہ چاشنی برپا کی جس نے ناول کو پچھلے راستوں پر لوٹنے کی بجائے فقط آگے بڑھنے والے قدم دئیے۔ان کے شہرہ آفاق ناول میں احمق الدین ،میٹھی چھری ،پیاری دنیا ،طرفدار لونڈی ،کایا پلٹ،حیات، شیخ چلی شامل ہیں
روزنامہ زمیدار
روزنامہ زمیدار جس کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خاں تھے جو 1873میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے آپ کی وفات 27نومبر1956میں وزیرآباد میں ہوئی مولانا ظفر علی خاں کو بے مثل صحافت نگاری پربابا صحافت کے خطاب سے نوازا گیا مولانا ظفر علی خاں معیاری صحافت کے بانی اور اکثرصحافیوں کے راہنما وسرپرست تھے آج بھی اردو صحافت کے علوم و شعور کے لیے مولانا ظفر علی خاں کے طرز صحافت کے مطالعے کا تقاضا کرتا ہے شگفتہ وعام فہم نثر کے روح رواں مولانا ظفر علی خاں متعددکتابیں تخلیق کرکے گئے جس میں معرکہ مذہب و سائنس ،خیابان فارس ،ڈرامہ جنگ روس و جاپان شہرہ آفاق ہیں ۔زمیدار ایک ہفت روزہ اخبار کی حیثیت سے مولانا ظفر علی خاں کے والد منشی سراج الدین احمد نے جنوری 1903میں ہفتہ وار میگزین کی شکل میں لاہورسے جاری کیا تھا 1909میں ظفر علی خاں کے والد منشی سراج الدین کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ظفر علی خان نے زمیدار اخبار کی سرپرستی و زمہ داری سنبھالی ہفت روز زمیدار جو لاہور سے پہلے کرم آباد منتقل ہوا تھا دوبارہ1911 میںاس کا دفتر لاہور واپس آ گیامولانا ظفر علی خاں کی جادوئی صحافت کی بدولت ترقی عوامی پسندیدگی کی بدولت روزنامہ زمیدار بن گیایکم مئی 1909کو پہلی دفعہ روزنامہ زمیدار کے نام سے شائع ہونے والا انڈین مسلم نیوز پیپر تھا روزنامہ زمیدار نے لوگوں میں اخبار بینی کے شوق کی وہ فضا پیدا کی جس نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر تاریخ رقم کی ۔
اردو اخبارات میں رائٹر اور ایسوسی ایٹیڈپریس جیسی عالمی خبروں رسا ایجنسیوںکی خدمات حاصل کیں جس کی وجہ سے اس نے ہم عصر اخبارات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا مولانا ظفر علی خاں ایک ہنگامہ خیز صحافی ہی نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ شعلہ بیان مقرر بے مثل نثر نگار اور بے بدل شاعر تھے وہ ہر موضوع پر بڑی جرت اور بے باکی کے ساتھ اثر انداز تحریر کو تخلیق کرنے کا انمول فن رکھتے تھے حصول عوامی حقوق میںانقلابی شعور پیدا کرتے جس کی وجہ سے حکومت ان سے بار بار شہادتیں طلب کرتی مولانا ظفر علی خاں نے روزنامہ زمیدار کو جن شہرتوں اور خاصیتوں کی بلندی پر پہنچایا وہ 1947تک کسی اور اخبار کو نصیب نہیں ہوئی اخبار کی مقبولیت اور غیر معمولی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرحدی علاقوں میں اکثریت ایک آنہ دے کراخبار خریدتے تھے اور ایک آنہ اخبار کی پڑھائی کے لیے دیتے تھے روزنامہ کی روزانہ اشاعت تیس ہزار تک پہنچ گئی تھی ایک آنہ سے شروع ہو کر شام تک آٹھ آنہ تک چلا جاتا جبکہ اُس دور میں ٹرانسپورٹ کا اہتمام بھی بہت کم تھا
رسالہ تہذیب الاخلاق
رسالہ تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ 24دسمبر1870ء کو بنارس سے شائع ہوا ۔سرسید احمد علی خان کا رسالہ تہذیب الا خلاق تین مرتبہ بند ہوا پہلی بار 1876دوسری بار1881تیسری بار1897میں بند ہواجو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ضم ہو گیا تھا ۔اخبارات کو شائع کرنے میں 1835کو کھلی آزادی ملی آزادی کے ایک سال بعد یعنی 1836کو سر سید احمد خان کے بھائی سید محمد خان نے دہلی سے سیدالاخبارکے نام سے اخبار نکالا1845میںسید محمد خان کی وفات کے بعدسیدالاخبار کی زمہ داری سر سید احمد خان نے سنبھالی1869میں سرسید احمد خان انگلستان گئے اور 1870میں لندن سے واپس آئے اورایک ماہ بعد ہی 1870میں عید الفطر کے دن24دسمبر 1870کو اخبار تہذیب الا خلاق کا بنارس سے اشاعت و اجراکیا پہلے دو شماروں میںتمام مضامین سر سید احمد خان کے ہی تھے ایڈیٹر اور منیجر بھی خود ہی تھے تہذیب الاخلاق کی سب سے زیادہ مخالفت مولوی امداد علی نے کی تھی اور جواب میں امدادالآفاق رسالہ شروع کیااسی دوران مولوی علی بخش خان نے بھی دورسالے شہاب ثاقب اور تائید الاسلام جاری کیے یہی نہیں بلکہ تہذیب الاخلاق کی مخالفت میں کانپور سے نور الآفاق، نورالانوار، نجم الاخبار، لوح محفوظ آگرہ سے تیرہویں صدی اور دہلی سے اکمل الاخبار کے نام سے بھی رسالے نکلے تمام مخالف رسالوں کے نقطہ با نقطہ سر سید احمد خان اپنے اخبار تہذیب الاخلاق میںجواب دیا کرتے تھے تہذیب الاخلاق مقالہ نگاروں میں سر سید احمد خان کے رفقاء مولوی چراغ علی، محسن الملک، ڈپٹی نذیر احمد، نواب وقار الملک ،خواجہ الطاف حسین حالی شامل تھے تہذیب الاخلاق اخبار گیارہ سے بارہ سال تک شائع ہوتا رہا تہذیب الا خلاق کے اجرا سے پہلے سر سید احمد خان نے ساینٹفک سوسائٹی قائم کی تھی جس کا بعد میں نام علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ رکھا گیا علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اخبار نے مقالہ نگاری اور صحافت کو خوب ترقی دی۔
سر سید احمد خان نے قیام لندن میں اخبار ایڈیشن اور اسٹیل نامی انگریزی اخباروں سے متاثر ہو کر اخبار تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا تھا۔مہدی افادی کے مطابق اردو کے عناصر خمسہ پانچ ہیں جن میں سر سید احمد خان ،الطاف حسین حٓالی، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد ہیں ڈپٹی نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار بھی ہیںیہ ناول معرات العروس کے نام سے تھا تہذیب الاخلاق کی تاریخی بنیاد کا حسن یہ تھا کہ اس کی مخالفت میں کئی اخبارات و رسالے شائع ہونے شروع ہوئے یہ کام سر سید احمد خان کے رفقاء محسن الملک مولوی چراغ علی سید مہدی علی خاں مولوی زکا اللہ سمیع اللہ خاںعنایت اللہ خاںوقار الملک حاجی محمد اسماعیل دینا ناتھ گنگولی کے ساتھ سے ہوتا رہا سر سید احمد خان کی تحریک سے وابستہ شعرا وادباء وحید الدین سلیم سجاد حیدر یلجرم مولوی عبد الحق عبدالحلیم شررحسرت موہانی رشید احمد صدیقی عابد حسین ڈاکٹر زاکر حسین عبدالماجد دریاآبادی کلام السیدین پروفیسر محمد مجیب عنایت اللہ خاں طفیل احمد ظفر علی خاں آفتاب احمد خاں ڈاکڑ ضیاالدین و دیگراحباب شامل تھے
ہفت وارصدق جدید
عبدالماجد دریاآبادی ہفت وار صدق جدید کے ایڈیٹر تھے جو 1876میں پیدا ہوئے اور 1977میں فوت ہوئے عبدالماجد دریاآبادی ایک بلند پایہ ادیب و انشا پروازنقاد صحافی بے مثل طرز نگار تھے جن کے قلم میں یہ خاصیت تھی کہ وہ عام سے عام بات کو جدت وندرت کے ساتھ بیان کرنے کا کمال رکھتے تھے سوال وجواب کے انداز میں اپنا مفہوم انتہائی خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہر لمحہ حیات کو تصنیف و تالیف اور مطالعہ کے لیے وقف کرناخود پر فرض سمجھتے تھے ان کی ساری قلم و کتاب کاوش کو ہفت وار صدق جدید میں دیکھا جا سکتا تھا جس نے مقبولیت و پسندیدگی میں بڑا حصہ کمایا آپ سچ گوئی کے ساتھ حالات حاضرہ پر مختصرتبصرے ادبی و سیاسی دنیا میں انتہائی مقبول تھے اردو کا ہر پرچہ ان سے استفادہ کرتا آپ کا ہر لفظ قابل اعتبار و انمول قرار پایا ان کی مشہور تصنیف مقالات ماجد،تصوف و اسلام ، اکبرنامہ ،خطوط مشاہیر ،تاریخ اخلاق یورپ ،فلسفہ اجتماع ،فلسفہ جذبات و دیگر شامل ہیں
روزنامہ قومی اخبار
روزنامہ قومی اخبارلکھنو کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری تھے جو یکم مئی 1912میں پیدا ہوئے اور آپ کی وفات 1999میں ہوئی آپ ناصرف مدیر روزنامہ قومی اخبار لکھنو تھے بلکہ انجمن ترقی اردو ۔یو۔پی کے سیکرٹری بھی تھے حیات اللہ انصاری نے اپنی قلمی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا پھر صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تو شہرت نے قدم بوسی کی معیاری متوازن سلجھی صحافت تاحیات آپ کا شیوہ رہی پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو بھی بڑی اسلوبی کے ساتھ آسان زبان میں پیش کرتے انہوں نے اردو میں پہلا صحافتی ناول لہو کے پھول لکھا جو پانچ جلدوں پر مشتمل تھا جس میں جنگ آزادی کی کہانیوں کو حقیقی تناظر میں پیش کیا ۔روزنامہ قومی آواز کے بانی جواہر لعل نہرو تھے چیف ایڈیٹر ظفر علی خاں تھے روزنامہ قومی آوازدہلی کا پہلا شمارہ 1937میں جاری ہوا 1938میں آل انڈیا تعلیم گھر لکھنو سے قومی آوازکی اشاعت جاری ہوئی ۔1945میں لکھنو سے حیات اللہ انصاری کی ادارت میں شائع ہوا
رسالہ الہلال
مولانا عبد الکلام آزاد اس کے مدیر تھے جو 1888میںمکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور 1958میں دہلی میں وفات پائی آپ کا اصل نام محی الدین احمد اور تاریخی نام فیروز بخت تھا مولانا عبدالکلام آزاد جیسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں آپ کے والد مولانا محمد خیر الدین خدا رسیدہ بزرگ ولی کامل تھے مولانا عبدالکلام آزاد کی ادبی صحافتی زندگی رسالہ الہلال سے عیاں ہوئی رسالہ الہلال کے بند ہو جانے پر البلاغ نکالا وہ بھی حکومت برطانیہ کے حسد کا شکار ہو کر بند ہو گیا رسالہ الہلال کا پہلا شمارہ 13جولائی 1912کو کلکتہ سے شائع ہوا آخری شمارہ 18نومبر1914کو شائع ہوا پریس ایکٹ کے تحت اس کی چھپائی بند کر دی گئی تھی رسالہ الہلال دوبارہ جون 1927کو شائع ہوااور تقریبا سات ماہ تک پابندی سے شائع ہوتا رہا یعنی دسمبر 1927تک جاری رہا رسالہ الہلال کے بند ہونے کے بعد مولانا عبد الکلام آزاد نے 12نومبر 1915کو البلاغ رسالہ جاری کیا الہلال اور البلاغ کے ناشر و منیجر مولوی فضل الدین احمد تھے جو مولانا کے مخلص ساتھی ودوست تھے انہی کے کہنے پر مولانا عبد الکلام آزاد نے اپنے خاندانی حالات کو تزکرہ کے نام سے مئی 1916سے 17اکتوبر 1916کے درمیانی وقت میں مکمل کیا ۔مولانا عبدالکلام آزاد نے کلکتہ سے ہفتہ وار پیغام جاری کیا جو 23ستمبر 1921تک شائع ہوتا رہا
ماہنامہ اردو معلی
ماہنامہ اردو معلی حسرت موہانی نے جاری کیا تھا ان کا اصل نام سید فیض الحسن اور حسرت تخلص تھا آپ 1875میں قصبہ سوہان ضلع اناو ۔یو،پی میں پیدا ہوئے 1903میں M.A.Oکالج علی گڑھ سے بی اے پاس کیا اسی سال رسالہ ماہنامہ اردو معلی علی گڑھ سے جاری کیا حسرت موہانی کا یہ معیاری ماہنامہ رسالہ عرصہ دراز تک علم وادب کی خدمت کرتا رہا بی اے کرنے کے فوری بعد حسرت موہانی نے صحافتی کیریر کا آغاز کر دیا تھا حسرت زمانہ طالب علمی کے دور سے شعر وسخن کے شیدائی تھے جلال لکھنوی کے شاگرد ہیں جنہوں نے علم عروض سکھایا نیاز فتح پوری بچپن کے دوست تھے حسرت موہانی تین بار جیل گے پہلی بار 23جون 1908کو بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوئے دوسال قید اور پانچ سو جرمانے کی سزا ہوئی جرمانے کی رقم ادا نہ کر پانے کی صورت میں سرکار نے ان کی لائبریری نیلام کروادی تھی دوسری بار 13اپریل 1916کو جیل گئے اور تیسری بار 14اپریل کو کانپور میں گرفتار ہوئے کیونکہ حسرت موہانی نے رسالہ اردو معلی میں انگریزوں کی پالیسی کے خلاف مصر میں انگریزی تعلیمی پالیسی کے نام سے مضمون شائع کیا تھا انگریزی حکومت نے اس کو باغیانہ مضمون قرار دیا تھا ۔
روزنامہ قومی آواز
روزنامہ قومی آواز لکھنو سے شائع ہوا جس کے ایڈیٹر مدیر افسانہ و ناول نگارحیات اللہ انصاری تھے ان کا پہلا افسانہ انوکھی مصیبت 1939میں چھپا پھر لہو کے پھول پانچ جلد میں سب سے بڑا ناول جو 1969میںشائع ہواتھا اور بڈھا سود خور بھی ان کا مشہور افسانہ تھا۔

روزنامہ انقلاب بمبئی
ظ انصاری اس کے ایڈیٹر تھے جن کا اصل نام ظلحہ حسن انصاری تھا جو سہانپور میں پیدا ہوئے روزنامہ انقلاب پہلی بار 1938میں بمبئی سے جاری ہوا اس کے بانی عبدالحامد انصاری تھے دہلی سے روزنامہ قومی جنگ سبط حسن نے نکالا تھا جو امریکہ چلے گئے تو ظ انصاری نے روزنامہ قومی جنگ کی ادارت کو سنبھالااور اپنے رفقاء میر اجی ،اخترالایمان ،مدھو سودھن ،کے ساتھ مل کر ایک ادبی رسالہ خیال کے نام سے جاری کیا ۔
یہ تو اردو صحافت کی بنیاد میںبڑی پہچا ن اور تاریخ رقم کرنے والے اخبارات ورسالہ جات کا معلوماتی تزکرہ تھا ہی مگر اس کے ساتھ اور بھی کئی نام ا ور کام ہیں جنہوں نے اردو ادب کی خدمت کر کے تاریخ میں اپنا نام درج کروایا ان کا بھی مختصر تعارف آپ کے زہن کی دہلیز پر اتارتے چلیں ۔
ابتدائے اردو اخبارجام جہاں نما اور ہندوستان مدیرمنشی سدا سکھ لال۔اردو معلی اور تزکرہ الشعرا،حسرت موہانی۔الہلال ، البلاح ،روزنامہ وکیل ، معارف،نوائے ادب ،مولانا عبدالکلام آزاد۔تہذیب الاخلاق (محمڈن سوشل ریفارمر )سرسید احمد خان۔قومی آواز ،سب ساتھ اور کامریڈ مدیرحیات اللہ انصاری ۔اردو،عبدالحق۔ساقی تمدن ،اور عصمت ،راشدالخیری۔دبدبہ آصفیہ،رتن ناتھ سرشار۔سچ،صدق جدید عبدالماجد دریا آبادی۔دلگذار،عبدالحلیم شرر۔دہلی اخبار ،اور (ہمدرد ،1913میںسب سے پہلے اردو ٹائپ میں شائع ہوا)کامریڈ انگریزی مولانا محمد علی جوہر۔سید الاخبار ،مولوی محمد باقر ۔ریاض الاخبار سر سید احمد خاں ۔آزاداورزمانہ منشی دیا نرائن نگم ۔معارف سائنس ،سید سلیمان ندوی۔نیرنگ خیال،محمد حسین آزاد۔مخزن ،حکیم محمد یوسف خاں ۔سہیلی ،شاہد احمد دہلی ۔اودھ پنچ اور پیسہ اخبار ،منشی سجاد حسین ۔مرقع عالم ،محمد علی خاں طبیب۔روزنامہ ساتھی ماہنامہ تہذیب آگرہ اخبار، دبدبہ سکندرپوری روزنامہ رام پور،سہیل عظیم آبادی ۔ریاض الاخبار، ۔انقلاب ،بمبئی سے عبدالمجید سالک ۔ہمدم دہلی سے سید جالب دہلوی ۔نگار لکھنو سے نیاز فتح پوری ۔معاصرپٹنہ سے قاضی عبدالوود۔کہکشاں ،ڈرامہ نگارامتیاز علی تاج ۔امروز اور پاکستان ٹائم فیض احمد فیض ۔تحریک ،مالک رام ۔منادی دہلی سے خواجہ حسن نظامی ۔الجمعتہ،مولانا عثمان فار قلیط۔دعوت ،محمد اسلم ۔ساتھی دہلی سے شاہد احمد دہلوی۔پیام حیدر آباد سے قاضی عبدالغفار ۔ بلٹزبمبئی سے خواجہ احمد عباس۔عزائم لکھنو سے جمیل احمد ۔آئینہ دہلی سے انقلاب بمبئی سے ظ انصاری نے جاری کیا ۔ملاپ دہلی سے مہاشہ خوشحال چند خورشید اورزبیر ۔رسالہ مدینہ ،بجنورسے ابو سعید بزمی اور حامد الانصاری غازی نے نکالا۔معارف اعظم گڑھ سے سید سلیمان ندوی اور شاہ معین الدین ندوی ۔
شب خون ،الہ باد سے شمس الرحمن فاروقی ،عقیلہ شاہین ۔دہلی سے زہن جدید مدیر زبیر رضوی۔استعارہ نئی دہلی سے مدیر صلاح الدین پرویز۔شعر و حکمت ،حیدرآبادسے مدیر مغنی تبسم۔نئی کتاب نئی دہلی سے مدیر شاہد علی خاں۔مباحثہ ،دوماہی،پٹنہ سے مدیر وہاب اشرف۔نقد و نظر ،اسلوب احمد انصاری۔فنون لاہور سے مدیر احمدندیم قاسمی ۔رومان ،اختر شیرانی۔گل رعنا ،مولوی کریم الدین ۔معیار الشعراء شیونرائن آرام ۔الناظر ،ظفر الملک علوی ۔کشمیری میگزین ،محمد دین فوق۔دکن ریویو ،پنجاب ریویو ،مدیر ظفر علی جامی ۔سوغات بنگلورسے مدیر محمد اعجاز۔ماہنامہ اخبار اردو اسلام آباد۔سیپ ،کراچی سے۔نقوش لاہور سے ۔اوراق سرگودھا سے ۔دریافت سہ ماہی اسلام آباد سے ۔رامپور ،رامپور رضا لائبریری جرنل سے ۔علم و آگہی مجلہ گورئمنٹ نیشنل کالج کراچی سے۔
ماہنامہ قومی زبان کراچی سے ہفت روزہ ہماری زبان دہلی سے ۔لفظ ،اورینٹل کالج لاہور سے ۔تحقیق نامہ گورئمنٹ کالج لاہور۔صادق الاخبار ،کوہ نور 1850میں منشی ہر سکھ رائے نے لاہور سے جاری کیا ۔اردوکا پہلا بارہ صفات پر مشتمل رسالہ 1857میں خیرخواہ ہند تھا ایڈیٹر پادری آر سی ماتھر مرزا پور سے ہفت روزہ اخبار سائنٹفک سوسائٹی 1866میںایڈیٹر سرسید احمد علی خان جس کا انگریزی ایڈیشن دی علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے نکلتا تھا رسالہ شب خون کے ایڈیٹر و مدیر شمس الرحمن فاروقی تھے ۔رسالہ مغزن کے ایڈیٹر و مدیر عبدالقادر تھے ۔رسالہ سوغات کے مدیر ویڈیٹر محمود ایاز تھے روزنامہ خلافت مولانا محمد علی جوہر کے عزیز چلاتے تھے ۔اقبال اخبار جس کے مالک کبیر صاحب تھے ۔انقلاب عبدالحمید انصاری صاحب کا۔دیوبند سے مہاجر اخبار پہلا اخبار تھا ۔اور پھر بہت سے قلمی ادبی پھول اپنی مہک کے ساتھ تاریخ کے گلشن میں محفوظ ہیں جن کی بدولت آج بھی دور حاضر میں جدید تقاضوں سے اردو صحافت بڑے نام اور کام پر گامزن ہے آج کے سبھی اخبار اس کی تصویر ہیں

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button