کشش کا قانون ۔۔۔ تحریر: تحریر: رمشا یاسین
دنیا کا کویٔ بھی نظام، کویٔ بھی قانون ہو، اللہ کے ارادوں سے علیحدہ نہیں۔ اللہ فرماتا ہے: وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمان کو ایسے سہاروں کے بغیر قایٔم کیا جو تمکو نظر آتے ہوں، پھر وہ اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا، اور اس نے آفتاب و مہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا۔ اس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقتِ مقرر تک کے لیٔے چل رہی ہے۔ اور اللہ ہی اس سارے کام کی تدبیر فرمارہا ہے۔ وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو (سورہ الرعد)۔ اور انہیں قانونوں میں سے ایک قانون ہے کشش کا قانون جو کہ انسان کی سوچ پر منحصر ہے۔ گویا کہ انسان کی سوچ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اگر چاہے تو اپنی زندگی کو جنت بنالے اور چاہے تو جہنم۔ انسان کی کامیابی و ناکامی اس کی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر انسان برا سوچتا ہے اور برے کی امید کرتا ہے تو اسے برا ہی نصیب ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اچھا سوچے اور اچھے کی امید رکھے تو اسے اچھا ہی ملتا ہے۔ کیوں کہ آپ جو کچھ بھی سوچتے ہیں، حقیقت میں وہ اپنے لیٔے مانگ رہے ہوتے ہیں۔
اور اس کا ثبوت قرآن اس طرح دیتا ہے: اور آدمی برایٔ کی دعا کرتا ہے جیسے بھلایٔ مانگتا ہے اور آدمی بڑا ہی جلد باز ہے (سورۃ الاسراء)۔تو کیا انسان ہاتھ اٹھاکر اپنے لیٔے برایٔ مانگے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں! سوچنا ہی کافی ہوتا ہے۔ برا امید کرنا ہی مانگنا ہوتاہے۔کتاب، دی سیکریٹ میںکشش کے قانون کے مطابق پہلا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کی سوچ ثابت کر دے گی کہ فلاں شے آپ کو ملنے والی ہے کہ نہیں اور وہ اس طرح کہ اگر آپ سوچیں ،میں ایسا نہیں چاہتا تو بدلے میں آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو آپ نہیں چاہتے۔ اسی لیٔے اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی چیز سے آپ جتنا بھی دور بھاگنے کی کوشش کرلیں وہ اتنا ہی آپ کے پاس آتی ہے۔ پس تو اگر آپ یہ سوچیں کہ میں ایسا چاہتا ہوں کہ ایسا ہو تو ویسا ہی ہوگا۔ اکثر لوگوں کے لیٔے ان کی چاہتیں اس لیٔے لاحاصل بن جاتی ہیں کیوں کہ ان کے دل میں اسے کھو دینے کا ڈر ہوتا ہے، شک ہوتا ہے، وہ یقین کی طاقت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اور یہ ڈر اتنا بڑھتا ہے کہ وہ اس بات پر توجہ ہی نہیں دیتے کہ ہمیں فلاں چیزپانے کے لیٔے ہاتھ پیر مارنے بھی چاہییں، نہ کہ اسے پانے سے پہلے ہی کھو دینے کے ڈر میں مبتلا رہنا چاہیے۔ اسی لیٔے اللہ کہتا ہے کہ میں بندے کو اس کے گمان کے مطابق دیتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مایوسی کفر ہے۔ کیوں کہ جب انسان مایوس ہوتا ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے انکاری ہوجاتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ سے سب کچھ جانے لگتا ہے، نتیجتاً وہ اور مایوس ہوتا ہے۔ مایوس ہونا صرف یہی نہیں کہ اگر انسان کوکچھ نہ ملے تو وہ کفر آمیز باتیں کرنے لگے بلکہ مایوس ہونا یہ بھی ہے کہ جو نعمتیں اللہ نے اسے دی ہیں، وہ اس سے بھی انکاری ہوجایے اور اللہ کی ناشکری کرے۔ اللہ فرماتا ہے: اگر تم شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفر کروگے تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے (سورۃ ابراہیم)۔ یعنی کہ اگر تم نے میری نعمتوں سے انکار کیا تو یاد رہے کہ اگر میں کچھ دے سکتا ہوں تو لے بھی سکتا ہوں۔ کتاب دی سیکریٹ میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ کشش کے قانون کے مطابق آپ جتنا شکر کریں گے، نعمتیں اتنی ہی زیادہ بڑھیں گی۔اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ کچھ پانے کے لیٔے دوسرا عمل ہے یقین کرنا۔ یعنی کہ جب آپ نے یہ سوچ لیا کہ آپ ایسا چاہتے ہیں تو اب یقین کرنا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ اور یقین اتنا ہو کہ دنیا کی کویٔ طاقت اسے ہلا نہ سکے۔ اللہ بھی تو یہی کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو ، میں تمہیں دوں گا! اور جب آپ اس سے مانگ چکیں تو یہ جان لیں کہ وہ سب کچھ کر دینے پر قادر ہے۔ وہ آپ کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایے گا۔ انسان کے لیٔے تو کچھ ناممکن ہوسکتا ہے لیکن اللہ کے لیٔے نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے ہمیں دعا مانگنے کا طریقہ بھی سکھا دیا سورۃ البقرہ کے آخری رکوع کی شکل میں۔ تو جب دینے والا خود سکھا رہا ہے کہ دعا کس طرح مانگتے ہیں تو ملنا تو یقینی ہے۔ اور کویٔ شک نہیں کہ جب انسان قدرت کی طاقت پر یقین رکھتا ہے تو اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اسے خود پر یقین ہونے لگتا ہے۔ اور پھر آتا ہے تیسرا عمل، حاصل کرنا۔ یعنی کہ انسان صرف جستجو کرے، محنت کرے۔ اس کا کام یہ سوچنا نہیںہے کہ اسے فلاں شے کس طرح ملے گی، بلکہ اس کا کام صرف ہاتھ پیر ہلانا ہے۔ راستے اللہ خود بہ خود ہموار کرتا جایے گا کیوں کہ وہ مصور لاسباب ہے۔ اور جب انسان میں یقین کی طاقت ہوتی ہے تو وہ کبھی جدو دہد کرنا نہیں چھوڑتا۔ کیوں کہ اس کے اندر سے سارا ڈر نکل چکا ہوتا ہے۔ اسے شک نہیں ہوتا، نتیجتاً حاصل ہونا یقینی ہے۔ انسان اگر غریب ہے تو وہ اس لیٔے نہیں کہ اس کے پاس پیسہ زیادہ نہیں بلکہ اس لیٔے کیوں کہ اس کی سوچ ہی غریب ہے۔ یعنی وہ شخص جوپیسہ خرچ کرنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں ختم نہ ہوجایے، وہ غریب ہی ہے۔ کیوں کہ وہ جتنا ڈرے گا اور جتنا پیسے کے پیچھے بھاگے گا، پیسہ اس سے دور بھاگتا جایے گا۔ وہ تھوڑا سا بھی خرچ کردیگا تو اسے لگے گا کہ ختم ہوگیا۔ اس کے لیٔے کبھی بھی کافی نہیں ہوگا چاہے کتنا بھی آجایے۔ جب کہ وہ شخص جو پیسہ خرچ کرنے سے نہیں ڈرتا، بلکہ وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ تو آنے جانے کی چیز ہے، اور جو کبھی بھی پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتا، پیسہ خود اس کے پیچھے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو جتنا زیادہ خرچ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں دیتے ہیں، ان کا مال کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ بڑھتا جاتا ہے۔کیوں کہ انہیں یقین ہوتا کہ اللہ انہیں اور دے دے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت عثمانؓ ہیں۔ بلکل اسی طرح اگر آپ چاہیں تو اپنی سوچ کے ذریعے اپنے رشتوں کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو برباد کرسکتے ہیں۔ وہ ایسے کہ جب آپ ہر چیز کے لیٔے دوسرے کو قصور وار ٹھہرایٔیں گے، تو اپنی غلطیوں سے کوتاہی برتیں گے اور سامنے والے کو ناجایٔز جج بھی کریں گے۔
کیوں کہ آپ کی سوچ، آپ کا دماغ آپ کو انا پر قایٔل کر چکا ہوگا۔ جی ہاں، انا ایک دماغی مسیلہ ہے، جو رشتوں کو ختم کردیتا ہے۔ اور اسی لیٔے اللہ کو عاجزی و بردباری پسند ہے۔ اللہ کو وہ پسند ہے جو اپنی غلطی ہونے پر معافی مانگنے سے نہیں کتراتا۔ کشش کے قانون کے مطابق اگر انسان کسی کا بھی برا چاہتا ہے، یا برا کرتا ہے تو حقیقت میں وہ برایٔ اپنے لیٔے خرید رہا ہوتا ہے۔کیوں کہ اس بات سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا کہ انسان جو اپنے لیٔے سوچ رہا ہوتا ہے، وہی دوسروں کے لیٔے بھی سوچ رہا ہوتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو خود اپنی بھلایٔ نہیں چاہتا، وہ کسی دوسرے انسان کی بھلایٔ کیوں کر چاہے گا؟ اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے کینہ و بغض و عداوت جیسی آگ بھڑکتی ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ ڈر ہوتا ہے، خوف ہوتا ہے ہے کہ کہیں کویٔ ہم سے آگے نہ نکل جایے، کہیں کسی کو ہمسے زیادہ خوشیاں نہ مل جایٔیں، یا کسی کہ پاس اگر زیادہ نعمتیں ہیں تو کیوں ہیں۔ ایسا انسان صرف اور صرف برایٔیوں پر توجہ دیتا ہے، نتیجتاً برا کرتا ہے اور برا خریدتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: اگر تم بھلایٔ کروگے، اپنا بھلا کروگے۔ اگر تم برایٔ کروگے، اپنا برا کروگے (سورۃ الاسراء)۔ اور یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ کشش کا قانون عمل میں ہے۔ لہٰذا انسان کی پوری زندگی مختلف زاویوں سے اس قانون کے ارد گرد گھوم رہی ہے اور اگر انسان چاہے تو کچھ بھی کرسکتا ہے ۔انسان کی تقدیر بدلتی رہتی ہے اس کی کوشش، ارادوںاور دعا کی بدولت۔ سچ ہے کہ دعا تو موت کو بھی ٹال دیتی ہے۔ سچ ہے کہ جستجو سے کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ جس نے تقدیر لکھی ہے وہ اسے بدلنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔