رائے ونڈ تبلیغی اجتماع
لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا انبیاء علیہم السلام اور علمائے ربانین کا طریقہ ہے، جوکہ سب سے بڑی نیکی، اور سب سے بہترین کام ہے، کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی اسلام ہے جو کہ دین فطرت، فلاح کا مذہب اورنجات کا واحد راستہ ہے ۔ ظاہر ہے جو لوگ اسلام کی دعوت دیں گے ان کی پہلی ذمہ داری ہوگی کہ وہ خود اس پر عمل بھی کریں، نیک بنیں اور اپنے اعمال وکردار سے اس سچائی کو ثابت کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے دین حق کی تبلیغ کے لئے انبیاء کرام کو بھیجا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھروں کے جواب میں پتھر نہیں برسائے اور گالیوں کا جواب گالم گلوچ سے نہیں دیا بلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بڑے احسن انداز سے فریضہ تبلیغ سر انجام دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال رکھا کہ جہاں جس انداز میں سمجھانے کی ضرورت ہوتی وہی انداز اختیار فرماتے ، اور احساس رکھتے کہ دعوت کا ایسا انداز نہ ہو کہ جس سے مدعوئین اکتاہٹ محسوس کرنے لگیں۔ اور اب خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی بطور نمونہ ہمارے سامنے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد دین اسلام کی تبلیغ آپ کے ، ہمارے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے زمہ ہے۔ تبلیغی جماعت اس ضمن میں احسن خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ دنیا بھر میں دین اسلام کی تبلیغ کی محنت کے لئے عالم اسلام کے مسلمانوں کا سالانہ اجتماع ہر سال رائے ونڈ میں منعقد ہوتا ہے ۔ بلاشبہ حج کے بعد یہ عالم اسلام کا دوسرا بڑا اجتماع ہے جس میں لاکھوں فرزندان اسلام ذہن میں تبلیغ اسلام کی فکرلیے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شہروں ، قصبوں، دیہاتوں اور بیابانوں سے شرکت کرتے ہیں۔ منتظمین تبلیغی جماعت نے پاکستان بھر کے تبلیغی حلقوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ، اور ہر سال عوام کے بڑھتے ہوئے رش کے پیش نظر ایک حصے کا اجتماع ہوتاہے تاکہ عوام پاکستان اور دنیا بھر سے شرکت کرنے والے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مبلغین اسلام کے اجتماع رائے ونڈ میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے انسانوںکی ہدایت کے لئے دعا، اور تبلیغ کے موثر طریقہ کار پر حکمت عملی مرتب کرتے ہیں۔
مولانا محمد الیاس نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزارتی ہیں ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم ، گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے ۔ مولانا محمد الیاس فرماتے کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطے جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہے۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے خاص الخاص تعلق جب بنتا ہے جبکہ عزیز و رشتہ داورں کی نسبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ آج تبلیغی جماعت کی محنت کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے افراد تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے نظر آرہے ہیں۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر حاجات تک، گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف عمل ہے۔ ہماری اور تمام مسلمانوں کی زمہ داری ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ اور سربلندی کے لئے بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دیں تاکہ ہمیں اللہ ربّ العزت کی رضا حاصل ہو ۔