ابو جعفر منصور ،بنو عباس کا حقیقی بانی

عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے 754ء تا 775ء تک بائیس سال حکومت کی۔ یہ خلافت بنو عباس کے دورے خلیفہ ہیں۔ ان کے دور حکمرانی میںسن 756ء میں رومیوں نے اسلامی سلطنت پر حملہ کر کے ملطیہ کو جو سرحد پر فوجی لحاظ سے ایک اہم شہر تھا ،تباہ کر ڈالا۔ اگلے ہی سال مسلمانوں نے اسے واپس لے لیا۔ قیصر روم نے سات سال کے لیے صلح کر لی۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ منصور نے ملطیہ، مصیصہ اور دوسرے شہروں کو از سرے نو تعمیر کر انہیں خوب مستحکم کیا۔ سرحد کی حفاظت کے لیے کئی قلعے تعمیر کروائے۔ چند سال بعد معاہدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے قیصر روم نے اسلامی علاقے پر دوربارہ فوج کشی کی، مگر اسے شکست فاش ہوئی۔ جب بنو عباس نے بنو امیہ کے خلاف تحریک شروع کی تھی تو کسی امام کا نام متعین کرنے کے بغیر بنو عاشم کو ساتھ ملا کر لوگوں کو بنو امیہ کے خلاف اُبھارتے رہے۔ بنو امیہ کا خاتمہ ہوا تو بنو عباس کے خلیفہ سفاح خود حکمران بن گئے۔ اس پر حضرت حسن ؓ کے پوتے عبداللہ اور دوسرے علوی کوفہ آئے اور کہا یہ کیا بات ہے ۔خلافت پر ہمارا خلیفہ ہمارا حق تھا اور تم قابض ہو گئے۔ سفاح نے ان کو بہت مال متاح دے کر راضی کر لیا۔
سفاح کے بعدجب ابو جعفر منصور بنو عباس کا خلیفہ بنا، تو اسے علویوں سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔کیونکہ جب بنو امیہ کے آخری ایام میں جب مکہ میں عاشمیوں کی ایک مجلس انتخاب خلیفہ کے لیے بیٹھی تھی ۔ اس میں ابو جعفر منصور بھی شامل تھا۔ اس مجلس نے محمد بن عبداللہ کو خلافت کے لیے منتخب کر ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی ۔محمد بن عبداللہ اپنے شرفانہ اخلاق۔ اور اعلیٰ سیرت کی وجہ سے نفس زکیہ مشہور ہوئے تھے۔ نفس زکیہ ابو جعفرمنصور کے اقتدار میں آنے پر روپوش ہوگئے۔ ابو جعفر منصور نے اس تلاش کیا مگر ناکام رہے۔منصور نے مدینہ میں موجود علویوں کو جن کی تعداد ایک درجن تھی شبہ میں گرفتار کر کے اکژ کو قتل کر دیا۔ نفس زکیہ نے ان مظالم پرمدینہ پر چڑھائی کر اسے پر قابض ہو گئے۔ ابو منصور نے مقابلہ کے لیے عیسیٰ بن موسیٰ کو بھیجا۔ لڑائی میں نفس زکیہ مارے گئے۔ نفس زکیہ کے بھائی ابراھییم جو بصرہ میں تھا۔ اس نے بصرہ پر قبضہ کر لیا۔
عیسیٰ بن موسیٰ بصرہ یکی طرف بڑھا اور ابراھیم کو شکست دے دی۔ منصور نے اپنا ابتدائی دور شہر ہاشمیہ میں گزارا ۔ پھر’’ مدینہ السلام‘‘ کے نام سے بغدار کے قریب دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا شہر آباد کیا۔ یہ شہر ایک دائرے کی شکل کا تھا۔ مرکز میں شاہی محل، جامع مسجد اور سرکاری دفاتر تعمیر ہوئے۔ ارد گرد کچھ فاصلہ پر امراء کے مکانات تعمیر ہوئے۔ کوچہ بازار کشادہ اور ترتیب سے بنائے گئے۔ ارد گرد ایک مضبوط فصیل تعمیر ہوئی۔ خندق بھی کھدوائی گئی۔ آب رسانی کے لیے نہریں جاری کی گئیں۔ مختلف قسم کی منڈیاں شہر سے باہر قائم کی گئیں۔ شہر کے چار بڑے دروازے بنائے گئے۔ جن پر رات دن پہرا ہوتا تھا۔ فوجی چھاونی دریا کے کنارے پر بسائی گئی۔
مصری، یمنی اور خراسانیوں کے لیے الگ الگ بارکیں بنائی گئیں۔ اس پر بغدار دنیائے اسلام کا سب سے بڑا سیاسی اور علمی مرکز بن گیا۔منصور کے دور میں علماء نے اپنے فن میں کتابوں کی تالیف کرناشروع کیں۔ ان میں ابن جریح، اورزاعی، ابن عروبہ،حماد بن سلمہ، معمر بن سلمہ، معمر بن راشد اور سفیان ثوری نے احادیث نبویؐ کو کتابوں میں جمع کیا۔ امام مالکؒ بن انس نے منصور کی فرمائش پر کتاب ’’موتہ امام مالک‘‘ تالیف کی۔ محمدبن اسحاق نے رسولؐ اللہ کی سیرت اور آپؐ کے غزوات پر ایک کتاب لکھی۔ امام ابو حنیفہؒ نے کوفہ میں اور امام مالک نے مدینہ میں اپنے اپنے اُصول فقہ اسلامی کی تعلیم جاری رکھی۔ اس پر حنفی اور مالکی فقہ کی بنیاد پڑی۔ ابن المقفع ایرانی النسل نے منصور کے عہد میں، زبان کے ادیب کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ اس نے ایک تاریخی کتاب ’’خدائے نامہ‘‘ کو پہلوی زبان سے ’’سیر الملوک العجم‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔
پہلوی کی ایک اور کتاب’’ کلیلہ ودمنہ‘‘ جو سنسکرت زبان میں ہندی راجوں کی اُصول سیاست سکھلانے کے لیے قصے کہانیوں کی شکل میں لکھی تھی کا ترجمہ کیا۔ محمد بن ابراہیم فزاری نے منصور کے حکم پر علم ہیت کی ایک کتاب ’’سدھنتا‘‘ کو سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کیا۔ ابویخیٰ ٰ ابن الطہریق نے منصور کے لیے یونانی حکماء بقراط اور جالینوس کو عربی میں ترجمہ کیا۔ اساسانیوں کے عہدمیں خوزستان کے شہر جندی سابور میں ایک’’ بیمارستان‘‘ جو طبی درسگاہ کا کا دیتا تھا قائم کی تھی۔ اس کی بنیاد نسطوری فرقہ کے عیسائی طبیبوں نے ڈالی تھی۔ اور عہد اسلام میں وہی اس کے نگران چلے آ رہے تھے۔
خلیفہ منصور نے جورس بن جبرئیل بن بخت یشوع کو اس زمانے میں جندی سابور کے’’ بیمارستان‘‘ کا رائیس الاطباء تھا، کو اپنے علاج کے لیے طلب کر شاہی طیب کا درجہ دیا۔ جورس نے طب کی کئی کتابیں یونانی سے عربی میں ترجمہ کیں۔ جورس نے خود بھی ایک کتاب’’ کُناش‘‘ کے نام سے سریانی زبان میں لکھی۔ اس کو بعد میں حنین بن اسحاق نے عربی میں منتقل کیا۔ منصور ایک بڑا مدبر، بیدار مغز اور مستقل مزاج حکمران تھا۔ رات دن سلطنت کے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔ اس نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مختلف صوبوں کا والی مقرر کیا۔ عربوں کے علاوا کئی عجمیوں کو بھی اہم انتظامی عہدے دیے ۔ والیوں اور دوسرے عہدا داروں کی نگرانی کے لیے ہرجگہ پرچہ نویس مقرر کیے تھے، جو اس کو عاملوں کی کارگزاری، قاضیوں کے فیصلے، بازار کے نرخوں اور دوسرے اہم واقعات سے آگاہ رکھتے تھے۔ منصور سلطنت کی آمدنی اور اخراجات پر گہری نظر رکھتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنی وفات پر خزانے میں بڑی رقم چھوڑی تھی۔ منصور اپنے عہد و پیمان کی پروا نہ کرتا تھا۔اس نے دولت عباسیہ کے بانی اور اپنے بڑے حامی ابو مسلم کا دلاسا دے کر بلایا اور اپنے سامنے قتل کر دیا۔ اس نے ابن ہیر کو عہد نامہ لکھ دینے کے بعد بھی قتل کر دیا۔
اپنے چچا عبداللہ کو امان دی قید کیاپھر مرواڈالا۔ نفس زکیہ کو بھی مروانہ چاہتا مگر وہ منصور کے قابو نہیں آیا اور لڑ کر جان دے دی۔ مگر سلطنت کے حسنِ انتظام اور مملکت کے استحکام کے لحاظ سے منصور ایک صاحب ِ عزم اور بنو عباس کا ایک کامیاب حکمران تھا۔ اسی لیے اے بنو عباس کا حقیقی بانی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس پر بد عہدی، احسان فروموشی کا داغ موجود ہے۔ اس نے اپنے دشمنوں کو نیچا کیا۔ اپنے حسن تدبیر سے سلطنت کی عمارت کو اتنے مضبوط بنیادوں پر قائم کیا کہ اس کے خاندان نے اس کے بعد پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک حکومت کی۔ بعد کے تمام خلفائے بنو عباس اس کی نسل سے تھے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button