رحمت العالمین حضرت محمد ﷺ کی محبت بگڑی بات بنا دیتی ہے

دادا جی کے گائوں بچپن کے دنوں میں دادی جان ہمیں ہمسائیوں کے گھر برتن میں کھانے کی اشیاء ڈال کر بھیجتی تھیں تو اگلے گھر سے بھی واپس برتن میں کچھ ڈال کر لوٹایاجاتا میں سوچنے لگا خدا کے ہاں جانے والے عمل اس سے بھی زیادہ حسین سخاوت کے مقام پر ہوتے ہیں۔ جب مجھے دشمن نفس کی پہچان ہونے لگی میں ناراضگی خدا میں بہت دور نکل چکا تھا مجھے اپنے خساروں کا علم پچھتاوے کی صورت ستانے لگا۔ زندگی کی عصر تک پہنچ کریہ احساس ہواہے مغرب سر پر ہے عشاء ہونے کی دیر ہے پھرہمیشہ زندگی کے لیے کالی رات کی آغوش میں چلی جانی ہے اتنے سے وقت میںگزری حیات کی قضائوں کا کفارہ کیسے ادا ہو سکے گا؟میرے لیے دنیا کے سارے معاملے بے معنی ہو کر رہ گئے آخرت والی نفس و نفسی کا منظر آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ میںخدا کے حضور آنکھوں کے کٹوروں میںندامت و شرمندگی کے اشک بھر کر پیش کرنے گیا اور گمان تھا کہ خدا کی جانب سے دل کا برتن معافی کے تحفے سے بھر کر واپس لوٹے گا۔۔۔ایسا نہیں ہوایہ گائوں نہیں ہے ظفرخدا کی مرضی کا جہان ہے۔ میرے لیے خالی برتن کا لوٹنا بہت المناک تھا میں اس گمان میں رنجیدہ تھا کہ ایسی کیا خطا ہے جو خدا کے انکار کی صورت بنی ۔ ندامت کے آنسووں سے تو توبہ کے مرجھائے پھولوں پر بھی بہار آ جاتی ہے مگراس وقت میرے وجود کے آنگن میں گردش کرتی خزاںمیں امید کے درخت سے آس کے گرتے زدر پتوں کی کھنکھناہٹ کا ماحول طاری تھا۔مجھے سمجھ آ چکا تھا خدا ویسا نہیں جیسا فرقہ و جماعت پرست مولوی و پیر نظرانوں کے عوض بیچتے ہیں خدا اور ہی طرح کا مزاج ومعاملہ رکھتا ہے میں بارگاہ خداوندی سے اپنے اعمال نامے کی طرح دل کا خالی برتن ہاتھوں میں لیے لوٹ آیا۔۔۔مگر مایوس نہیںتھا کیونکہ میں اُس ہستی کو جانتا مانتا چاہتا ہوں جن کی خداکوئی بات رد نہیں کرتا۔ میں مال اور اعمال کا کنگال بندہ عالم تنہائی میںپرواز روح سے مدینہ منورہ کا یہ تصوراتی منظرسجا بیٹھا کہ میںمسجد نبوی ؑمیںعین روضہ مبارک کے سامنے ادائیگی نماز توبہ میں رب کو سجد ہ اس طرح کررہا ہوںکہ سربھی حضور ؑ کے سامنے جھک رہا ہے خدا کی عبادت اور حضور ؑ کے ادب کا اشتراک حیات ایمان کے وقت کوقبولیت کے قابل بنا رہا تھا پچھلی زندگی مدینہ کی یادوں میں جو تڑپتے ہوئے گزاری وہ حالت بے قراری ایک طرف مگر مدینہ سے واپس جانے کی تڑپ جسم سے روح جدا ہونے والی ازیت میں مبتلا کیے ہوئے ہوتی تھی مدینہ سے واپسی کا ختم ہوتا وقت زندگی کے آخری وقت کی طرح لمحہ لمحہ جان پہ بھاری گزرنے لگا اور دل و روح کے جڑے رابطے بحال رکھنے کو یہ حسرت شدت سے مچلنے لگی کہ کسی طرح حضور ؑ کو ساتھ لے جائوں یا خود کو حضور ؑ کے پاس چھوڑ جائوں ایک کام تو لازمی ہو جائے تاکہ باقی کا جینا آسان ہوسکے۔میں شدت سے یہ چاہنے لگاکہ مسجد نبوی ؑ کاداخلی دروازہ جہاں جوتے اتار کر پہلا قدم رکھتے ہیں وہاں اپنے دل کو نسب کردوں کہ در حضور ؑ کے ہر مسافر کے پیروں کے تلوے میرے دل پر آئیں اور یہ بوسے لیتا جائے اس منظر کو حضور ؑ دیکھ لیں اور تبسم فرما کر ملائیکہ کو حکم فرما ئیں اس دل کو اُٹھا کر میرے پاس رکھ دو ہم نے اسے شرف توجہ بخش دیا ہے ۔اکبر اللہ۔۔۔یہ سنتے ہی خوشبو کی ایسی لپٹ آئی کہ جسم و روح کو معطر کرکے اپنے حصار میں لے لیا یہ منگتا سخاوت کے آسمان تلے کھڑا کرم کی بارش کو سمیٹنے میں اپناتنگ دامن پھیلانے کی ناکام کوشش کیے جا رہا تھا ۔پھر احساس توجہ رسول اللہ ؑمیں عرض کرتا ہوں حضور ؑ خدا سے خدا کو مانگتا ہوں تو آپ ؑ کی جانب بھیج دیا جاتا ہوں۔ آپ ذات خدا کا رستہ بھی ہیںدروازہ بھی ہیں اور سلیقہ سفر بھی ہیں ۔۔حضور ؑ خدا کی توجہ کا طلبگار ہوں شفارش فرمادیجئے۔۔۔پھر یکدم خیال آیا ارے پگلے نگاہ مصطفی ؑ ہی تو نگاہ خدا ہے۔ آرزو پیش کر۔۔روح پہ یہ الفاظ القاء ہوئے ۔مانگ کیا مانگتا ہے محمد ؑ کے رب سے ؟ میں ہاتھ جوڑ کر کہنے لگااے محمد ؑ کے خدا مجھ ناکارہ و گنہگار کو ایسے حالات وسائل عطا فرمائیے کہ میں اپنے ماں باپ کو بیت اللہ اور روضہ رسول ؑ کے سامنے کھڑا کرکے یہ شہادتی الفاظ کہلوائوں کہ اے خدا اور محبوب خدا ہم نے اس دُکھ دینے کو معاف کر دیاہے آپ بھی معاف فرما دیجئے۔ ماں باپ کے لبوں سے نکلتے یہ لفظ خانہ کعبہ کی جانب روانہ ہوئے جیسے ہی وہ اندر گے میرے اندر کے سارے بوجھ باہر آ گے میں ماں باپ اور میرے درمیان احساس رضاخداوندی جسموں میں سرائیت کرنے لگا۔ میرے لیے یہ کام قبرمیںنور کاچراغ رکھنے جیسا تھا۔یہی وہ معاملات کی خرابی تھی جس کی وجہ سے خدا کی بارگاہ میں میری ذات پہ سے دھیان اُٹھا لیا گیا تھا جب خدا ماننا چاہتا ہے تو وہ والدین کے اندر سے اپنی ذات کے راستے جوڑتا ہے اور جب والدین بھی نا مانیںتو حضور نبی کریم ؑ کی جانب راغب ہوں جو گزرے وقت کو بھی سدھانے پر قدرت رکھتی ہے قربان جائوں اپنے رب پہ جس نے میرے بابا آدم ؑ کی روح سے بھی پہلے میرے آقا کریم ﷺ کا نور پیدا فرما کر عالمین پر اپنا کرم رکھ دیا۔پھر ہمیں تقسیم وقت کے اُس حصے میں رکھ دیا جہاں حضور ؑ ہم سے پہلے آ کرہمارے لیے دنیاو آخرت کی آسانیاں پیدا فرما گے مجھے یہ جان کر اتنی خوشی نہیں ہوتی کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہم سب عالم ارواح میں تھے جتنی یہ جان کر ہوتی ہے کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے سب حضور ؑ کے عالم دعا میں تھے ۔حضور ؑ آپ کے پوشیدہ احسانات روح چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے ۔تصور میں ہی سہی مگر مجھے اپنے پاس رکھ لیجئے۔۔۔حضور ؑ اپنے قریب کسی کونے میں تعینات فرما دیجئے۔۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button