مسلمان آخر زوال اور پستی کا شکار کیوں؟۔۔۔تحریر: محمد اسامہ رضا عطاری
آج ہم اگر صرف پاکستان کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ہمیں بہت کم ایسے مسلمان ملیں گے جو طلب علم دین میں مشغول ہوں گے اور جو یہ مشغول ہیں ان میں سے بھی بہت سارے اپنی تعلیم صرف اس لیے چھوڑ کر دنیا دار بن جاتے ہیں کہ باقی لوگ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں کہ تو مولوی بن گیا ۔ کیا مولوی بننا گناہ کبیرا ہے … ؟ اور آج جو مسلمان زوال اور پستی کا شکار ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ علم دین سے دوری ہے. آپ تاریخ کی کتابیں اٹھا کر پڑھ لیں آپ کو اس میں یہ بات ضرور نظر آئے گی کہ جب سے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا تب سے مسلمانوں کا زوال اور پستی کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ جب تک مسلمان اپنا ہر کام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتے رہے ہیں ان کا پوری دنیا میں ایک نام رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کب ممکن ہے…؟ جب ہمارے اندر علماء پیدا ہوں گے ۔ جب ہم اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم وفنون کے ساتھ ساتھ علم دین بھی سکھائیں گے۔ میں مانتا ہوں کی موجودہ دور میں دنیاوی تعلیم کی بھی اشد ضرورت ہے ٹھیک ہے یہ بھی حاصل کرنی چاہیے لیکن دیکھیں جہاں ہم دنیاوی تعلیم پر اتنے سال لگا دیتے ہیں وہاں اگر ہم دو چار سال علم دین بھی سیکھ لیں گے تو اس سے ہماری زندگی ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ علم دین کی برکت سے بندہ دنیاوی تعلیم پر بھی دین اسلام کی روشنی میں عمل کرے گا. کتنے ہی واقعات ایسے ملتے ہیں کہ بندہ ساری زندگی دنیاوی تعلیم پر خرچ کر دیتا ہے آخر میں جب خواہش کے مطابق کچھ بن نہیں پاتا تو خود کشی کر لیتا ہے جو کہ اسلام میں قطعی حرام ہے. ایسی تعلیم کا کیا فائدہ….؟
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر علماء کی تعداد میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے…؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ مدارس بنائیں اور ان کو سرکاری سطح پر سہولیات دیں اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کو سرکاری سطح پر نوکریاں دی جائیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ملک کے بجٹ میں ان مدارس کا باقاعدہ حصہ مقرر کیا جائے ۔ پھر ہم ان شاء اللہ دیکھیں گے کہ ہمارا ملک اور مسلمان کیسے ترقی کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے اپنی لاریب کتاب جس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اس کے کثیر مقامات پر علم دین حاصل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین علم دین حاصل کرنے پر ملتے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر شے کی اصل علم ہے۔ علم کے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ بلا تشبیہ و تمثیل آپ اس بات کو یوں سمجھیں کہ جب ایک باپ اپنی اولاد کو بار بار کسی بات کا حکم دیتا ہے تو اس کام میں باپ کی نظر میں بھلائی ہی بھلائی ہوتی ہے تو ہی باپ حکم دیتا ہے اور بار بار اس لیے دیتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر میرا بیٹا یہ کام کرے گا تو ہی کامیاب ہو سکتا ہے اگر نہیں کرے گا تو ناکامی اس کا مقدر بن جائے گی ۔
اب میں اُن آیات اور اور احادیث کو ذکر کرتا ہوں جس میں اللہ پاک اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں علم دین حاصل کرنے کا حکم ارشاد فرما رہے ہیں ۔ اللہ پاک علم دین حاصل کرنے کے بارے میں قرآن پاک میں فرماتا ہے:🌴قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ.اے محبوب آپ فرما دیجئے کیا عالم اور جاہل برابر ہیں (ہرگز برابر نہیں)وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ(122)اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکل جائیں تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اورجب اِن کی طرف واپس آئیں تووہ اِنہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں ۔(یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ص۴۵۹))اس آیت کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی قوم پر مامور فرماتے۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۵)🌴 كُونُوا رَبَّنِينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلَّمُونَ الْكِتَب وَ بمَا كُنتُم تَدْرُسُونَ (پ: ۱۶:۴۳ آیت: ۷۹)اللہ والے ہو جاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس سے کہ تم درس کر تے ہو ۔ (کنز الایمان )تفاسیر میں ہے کہ ربانین ( اللہ والوں ) سے مراد علماء فقہاء اور مدرسین ہیں ۔ 🌴 إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (پ: ۲۲ ۱۶:۴ آیت:۲۸)اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔پتہ چلا خوف خدا جیسی عظیم دولت اہل علم کو نصیب ہوتی ہے۔
🌴 يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ امَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُو الْعِلْمَ دَرَجَتِ (پ: ۱۲:۲۸ آیت: ۱۱)اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلندفرمائے گا۔🌴 وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا۔ (پ ۱۲ ع ۱۵ آیت ۱۱۳) عرض کرو اے میرے رب ! مجھے علم زیادہ دے۔ مجالس الا برار میں ہے علم کے شرف فضیلت اور اہمیت پر اللہ تعالی کا اپنے نبی محترمﷺ سے فرمان مبارک (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا) دلالت کرتا ہے۔💚علم کی فضیلت میں احادیث مبارکہ💚💚«من يُرِدِ الله به خيرا يُفَقِّهْهُ في الدين». [صحيح] اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطاء فرما دیتا ہے 💚 طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلَّ مُسْلِمٍ (ابن ماجہ ص٢٠مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ( بلکہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کاانحصار بھی علم دین پر ہے)💚 أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ طَلَبُ الْعِلْم(کنزالحقائق)تمام عبادتوں میں افضل عبادت علم دین حاصل کرنا ہے💚 أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ يُعَلِيَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ ( تغییر در منشورج: ص: ۱۳۳۸) تمام صدقوں میں سے افضل صدقہ یہ ہے کہ مسلمان شخص علم دین سیکھے پھر وہ علم اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے۔💚 مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ مَشى فى رياض الْجَنَّةِ ( كنوز الحقائق، ج: ص: 11) جس نے علم دین طلب کیا ( پڑھنا شروع کر دیا) وہ جنت کے باغات میں چل پڑا۔💚 مَن طَلَبَ الْعِلْمَ تَكَفَّلَ اللهُ برزقہ (کنوزالحقائق’ج:١ ص:١١١)جو شخص علم دین حاصل کرے اللہ پاک اس کے رزق کا ذمہ دار ہے. 💚 طَالِبُ الْعِلْمِ بَيْنَ الْجُهَالِ كَالْحَيِّ بَيْنَ الْأَمْوَاتِ ( الجامع الصغير ج ۱ ص : ۳۲۴)علم دین حاصل کرنے والا جاہلوں کے درمیان ایسے ہوتا ہے جیسے زندہ مردوں کے درمیان ہوتا ہے۔💚 مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يرجع (جامع ترندی ج:۲، ص: ۹۵) جو شخص علم دین سیکھنے کیلئے نکلے وہ واپس آنے تک اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہوتا ہے۔
💚 إِذَا جَاءَ المَوْتُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَهُوَ عَلَى هَذِهِ الْحَالَةِ مَاتَ وَهُوَ شَهِيدٌ (الجامع الصغير ج : أص: ۱۳۹) جب طالب علم کو علم دین طلب کرنے کی حالت میں موت آئے تو وہ شہید ہوتا ہے۔ 💚 مَنْ اَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى عُتَقَاءِ اللَّهِ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرُ إلَى الْمُتَعَلِمِينَ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ مَا مِنْ مُتَعَلِّم يَخْتَلِفُ أَي يَذْهَبُ وَيَجِيءُ إِلَى بَابِ الْعَالِمِ إِلَّا يَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِكُلّ قَدَم عِبَادَة سَنَةٍ وَيَبْنِى لَهُ بِكُل قَدَم مَدِينَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَيَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ وَالْأَرْضُ تَسْتَغْفِرُلَّهُ وَيُمْسِي مَغْفُورًا لَّهُ. ( تفسیر روح البیان از علامہ اسمعیل حقی قدس سره ج : اص (۱۰۲)جس شخص کا ارادہ ہو کہ ان لوگوں کو دیکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ سے آزاد کر دیا ہے تو اسے چاہئے کہ علم دین سیکھنے والوں کو دیکھ لے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں (حضرت محمد صلی الہ و سلم کی جان ہے۔ جو کوئی طالب علم عالم دین کے دروازے پر بار بار جاتا ہے یعنی جاتا اور آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی عبادت لکھ دیتا ہے اور ہر قدم کے بدلے اس کیلئے جنت میں ایک شہر بناتا ہے اور وہ طالب علم زمین پر چلتا ہے تو زمین اس کی بخشش کی دعا کرتی ہے اور وہ اس حال میں شام کرتا ہے کہ بخشا ہوا ہوتا ہے۔
💚 مَنْ وَقَرَ عَالِمًا فَقَدْ وَقَرَ رَبَّهُ ( كنوز الحقائق ج ۲ ص (۱۳۱) جس نے (صحیح العقیدہ) عالم کی عزت کی اس نے اپنے رب تعالیٰ کی عزت کی۔💚 سَيَأْتِي زَمَانٌ عَلَى أُمَّتِي يَفِرُّونَ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءِ فَيَبْتَلِيَهُمُ اللهُ بِثَلَاثِ بَلِيَّاتِ أُولَهَا يَرْفَعُ الْبَرْكَةُ مِنْ كَبهِمْ وَالثَّانِيَةُ يُسَلّط اللهُ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا ظَالِماً وَالثَّالِثَةُ يَخْرِجُونَ مِنَ الدُّنْيَا بِغَيْرِ اِيْمَانِ (درة الناصحين ص (۲۲) نبی غیب دان صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” عنقریب میری امت پر ایکزمانہ آئیگا کہ لوگ علماء وفقہاء سے بھاگیں گے (کہیں کے وہ پابندیاں لگاتے ہیں ان کے پاس نہ جاؤ تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تین بلاؤں میں گرفتار فرمادے گا۔ پہلی بلا یہ کہ ان کی کمائی سے برکت اٹھا دی جائینگی۔دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظالم حاکم مسلط کر دے گا اور تیسری بلا یہ کہ دنیا سے بے ایمان ہو کر مریں گے۔ (العیاذ باللہ تعالی)یہ پڑھنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ علم دین سیکھنا کتنا ضروری ہے اب ہر بندہ یہ نیت کرے کم از کم اپنے گھر سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو ضرور عالم دین بنانا ہے. اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں کے اندر علم دین کی سمجھ بوجھ عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم