غلامی پسندہے

وہ بہت پریشان تھا اب تلک دو تین لوگوںکے پاس جانے کے باوجود اس کا مسئلہ حل نہیں ہورہاتھا آبادی میں گنتی کے گھر تھے طبیب کااصرارتھا کہ علاج کے لئے شہد ضروری ہے ورنہ دوا اثرنہیں کرے گی وہ سوچنے لگا پیدل چل چل کر برا حال ہوگیاہے اولادبھی کیا چیزہے انسان اس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا پھربیٹیاں تو بہت پیاری ہوتی ہیں اسے عائشہ سے بڑی محبت تھی جب وہ رنگ برنگے کپڑے پہن کر آنگن میں دوڑتی پھرتی تو اسے محسوس ہوتا جیسے کوئی تتلی باغ میں چہچہارہی ہو ویسے غربت بھی کتنی نامراد ہوتی ہے مسائل زیادہ ہوںتو تنگدستی میں پریشانی بڑھ جاتی ہے۔۔ کم ازکم ایک پائو شہد اس کے دل و دماغ ایک ہی گردان ہورہی تھی چندسکوں میں ایک پائو شہد وہ کیسے خرید پائے گا اچانک اس کی نظر ایک پنساری کی دکان پرپڑی خالد لپک کر وہاں پہنچا اور درازداڑھی والے دکاندار سے ترنت کہنے لگا ’’بھائی مجھے شہد کی شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بہت بیمار ہے ا س کا علاج شہد سے ممکن ہے کم ازکم ایک پائو شہد ۔ افسوس ! میرے پاس اس وقت پیسے بھی کم ہیں۔
’’ میرے پاس شہد نہیں ہے دکاندارنے کہا پیسے کم ہیں تو کوئی بات نہیں تھی پھر آجاتے آ پ کی ضرورت کے سامنے پیسوں کی کچھ اہمیت نہیں۔۔۔خالد اس کی بات سنی ان سنی کرکے مایوسی کے عالم میں جانے لگا تو دکاندارنے کہا جناب ٹھہرئیے ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے لیکن اس کے لئے آپ کو کچھ دور جانا پڑے گا ’’ جہاں کہتے ہو میں وہاں جانے کے لئے تیارہوں خالد نے خوشی سے تمتماتے ہوئے کہا’’ ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے دکاندارنے بتایا وہ تاجر انتہائی نفیس انسان ہیں مجھے یقین ہے ان سے مل کرآپ کی ضرورت پوری ہوجائے گی ۔ خالد شکریہ ادا کرکے اس جگہ جا پہنچا جہاںقافلے نے پڑائو کرنا تھا وہاں تو جیسے جنگل میں منگل کا سماں تھا شہر کے بڑے بڑے تاجر بھی قافلے کے انتظارمیں تھے خالد کادل دھک دھک کرنے لگا اتنے بڑے بڑے تاجروں کے سامنے اس کی کیا حیثیت تھی وہ سوچنے لگا قافلے والے منہ مانگے داموں چیزیں بیچیں گے میرے پاس تو پیسے بھی کم ہیں پتہ نہیں بیٹی کے علاج کے لئے شہد ملے گا بھی یانہیں یقین اوربے یقینی کی کشمکش کے دوران اس کی آنکھوںمیں آنسو آگئے۔ آخر دور سے گرد اٹھتی دکھائی دی تاجر پر جوش ہوگئے کہ قافلہ آیا ہی چاہتاہے۔ وہ فوراً اٹھا اور تاجروں کے ہجوم میں شامل ہوگیا قافلے نے پڑائو ڈال دیا تھا اجناس، کپڑے کے تھان اور مختلف چیزیں اتاری جانے لگیں خالد نے قافلے کے امیر کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور نورانی چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا خالد نے ان کے روبرو جاکر عرض کیا کہ میری چھوٹی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کیلئے مجھے شہد کی ضرورت ہے لیکن میرے پاس پیسے کم ہیں مجھے کم از کم۔۔۔ نورانی چہرے والے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے بڑ ی نرمی سے کہا آپ فکرنہ کریں بیٹیاں توہ سب کی سانجھی ہوتی ہیں پھر انہوں نے فوراً اپنے غلام سے کہا: جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مٹکا میرے اس بھائی کو دے دیں۔
غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا گیا تو اونٹ پر وزن کا توازن بگڑجائے گا ۔ یہ سن کر نورانی چہرے والے نے تبسم فرمایا اور غلام سے کہا تب پھر ایسا کرودونوں مٹکے انھیں دے دئیے جائیں۔ یہ سن کر غلام گھبرا گیا اورحیرت سے بول اٹھا : آقا ! یہ ناتواں اتنا وزن کیسے اٹھائے گا؟۔ اس پر نورانی چہرے والے نے مسکراتے ہوئے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو۔ خالد کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن الفاظ سینے میں ہی دم توڑ گئے ادھرغلام نے یہ سنتے ہی دوڑ لگادی ا س نے اونٹ کو شہد کے 2 مٹکوں سمیت خالدکے حوالے کر دیا۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا خا لدحیران بھی تھا اور پریشان بھی اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا تھااس کا لوں لوں نورانی چہرے والے کو بے تحاشہ دعائیں دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دئیے دو مٹکوںپر ہی موقوف نہیں بلکہ وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔ خالد کا تجسس فطری تھا اس نے ایک شخص سے پوچھ ہی لیا کہ نورانی چہرے والا کون ہے ؟ ’’کمال ہے تم کیسے تاجرہو؟ اس نے سامان سے لدے اونٹ کی مہا رتھامے شخص کی لاعلمی پر تعجب کااظہارکرتے ہوئے کہا ’’یہ حضرت عثمان غنیؓ ہیں مدینے کے سب سے بڑے تاجر اللہ کے نبی ﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے ،خالد نے اثبات میں سرہلایا اور کہا میں نے آپ کی سخاوت کے کئی قصے ،کہانیاں سن رکھی ہیں جو سنا تھا آپ تو اس سے بڑھ کر ہیں۔
اِدھر غلام اپنے آقا حضرت عثمان غنیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لئے کہا تو تاویلیں تراشتے ہوئے پھر بھی نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ مٹکوں کے ساتھ ساتھ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہیگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو۔ اب میں ڈرگیا کہ اگر اب میں نے کوئی بات کی تو یہ نہ ہو کہیں آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم نہ صادرفرما دیں اس خوف سے میں نے جلدی سے دوڑ لگادی۔ ’’ اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو حضرت عثمان غنیؓ نے مسکراتے ہوئے کہا اس غلامی سے آزاد ہو جاتے یہ کتنا اچھا ہوتا۔ ’’آقا ! میں اس غلامی سے آزادی نہیں چاہتا تھا غلام آبدیدہ ہوگیا آپ کو تو مجھ جیسے سینکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن بخدا مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملے گا میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ ترجیح دیتا ہوں۔ مجھے تو آپ کی غلامی پسندہے۔’’تم ہم سے اتنی محبت کرتے ہو حضرت عثمان غنیؓ نے پوچھا ’’ آقا کاش میں آپ کو اپنا دل چیرکردکھا سکتا غلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تو آقا نے آگے بڑھ کر غلام کو گلے لگالیا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button