سینکڑوں مربع میل پر پھیلے لق و دق صحرا میں تن تنہا کھڑا‎ صحابی درخت

صاحبِ ایمان درخت آج بھی اس مقام پر ترو تازہ ہے‘جہاں اس نے نبی ﷺآخرالزماں کا دیدار کیا تھاموجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت مشرقی اردن میں صفوی کے مقام پر وادی سرہان کے قریب واقعہ ہے۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے آثار بھی تلاش کرلئے ہیں اور اس درخت کی دستاویزی فلم بھی بنائی ہے۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ یہ سینکڑوں مربع میل تک لق و دق صحرا میں اگا ہوا تنہا درخت ہے۔ مقام غور و فکرہے کہ اگر ایک درخت کو حب رسول کی بدولت حیاتِ دائمی نصیب ہوسکتی ہے تو اس دل پر موت کیسے وارد ہوسکتی ہے جو محبتِ رسول ﷺ کاگنجینہ بن جائے۔خوش نصیب اور سعادت مند ”صحابی درخت“ اردن میں موجود ہے۔

اسے تعظیم رسول کے طفیل بقائے دوام حاصل ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کی موجودگی کے مقام پر”صحافی درخت “کے علاوہ ایک پودا بھی پنپ نہیں سکالیکن اﷺس درخت کو آب وہوا کی شدت اور موسموں کے تغیر و تبدل سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس درخت کاذکر ”صحیح ترمذی“میں ”ابواب المراقب“میں موجود ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور اکرم کی عمرمبارک 12برس تھی جب جناب ابوطالب نے رو ¿سائے قریش کے ہمراہ تجارت کی غرض سے سفرشام کا عزم کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ آپ کو بھی ساتھ لے لیا گیا۔ مو ¿رخین کے نزدیک یہ سفر 582ئ میں ہوا۔ جب یہ قافلہ بیت المقدس کے شمال میں دمشق کے قریب بصریٰ کے مقام پر پہنچا تو ایک گھنے درخت کے قریب جناب ابوطالب سواری سے نیچے اترے۔ باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیراقتدارتھا۔ درخت کے قریب ہی ایک گرجا گھرتھا جس میں ایک راہب رہتا تھا۔ راہب کا لقب ”بحیرا“ (Bahira) یعنی پارسا اور نام جرجیس یا سرجیس تھا۔انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (Vol:1) مطبوعہ Leiden 1979‘ ص 922 کے مطابق اس نام کا تلفظ SERGIUS ہے۔ ”بحیرا“ اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم تھا اور کتابِ مقدس کا درس دیا کرتا تھا اور اپنے علاقے میں نہایت قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت سلمان فارسی نے بھی قبل از اسلام اسی سے علم حاصل کیا تھا۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ”مدارج النبوہ“ (جلد دوم) میں لکھا ہے کہ ”بحیرا“ کے اس علاقہ میں مقیم ہونے کی وجہ اس کی یہ تحقیق تھی کہ ادھر سے نبی آخر الزماں کا گزرہوگا

چنانچہ وہ حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو اپنی کھڑکی سے دیکھتا رہتامگر اس میں اسے وہ ہستی نظر نہ آتی۔ ”بحیرا“ بلا کا تارک الدنیا اورگوشہ نشیں بزرگ تھا‘ کبھی گرجا گھرسے باہر آیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی قافلے سے اس نے ملاقات کی تھی لیکن اس مرتبہ وہ خلافِ دستور قافلے پر نظریں جمائے گرجاگھرکے صدر دروازے پرکھڑا تھا۔ جب قافلے نے درخت کے نیچے پڑاو ¿ ڈالا تو وہ قافلے میں آکر گھس گیا اور حضوراکرم کا دستِ اقدس تھام کر لوگوں سے مخاطب ہو کر باآواز بلند کہنے لگا”یہ سرکارِ دو عالم ہیں‘ یہ رب العالمین کے رسول ہیں‘ اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کرمبعوث فرمائے گا“۔(ترمذی)اہل قافلہ ”بحیرا “کا یہ تعامل دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے۔

رو ¿سائے قریش میں سے ایک نے پوچھا ”اے بزرگ محترم! آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ “اس نے جواب دیا ”جب آپ لوگ گھاٹی سے اتر کے آ رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ تمام درخت اورپتھر ان کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں اور بادل ا ن کے سر پرسایہ کر رہا ہے۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔علاوہ ازیں میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان سکتاہوں جو ان کے دو کندھوں کے درمیان ہوگی۔“پھربحیراگرجا گھرمیں واپس چلاگیا تاکہ اہل قافلہ کے لئے ضیافت کا اہتمام کرے۔ جب وہ کھانا لے کراہل قافلہ کے پاس پہنچا تو حضوراکرم ﷺ اونٹ چرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپ کے بارے میں استفسار کیا۔ چنانچہ آپ کو بلایا گیا۔ آپ تشریف لائے تو ایک بدلی آپ کے سراقدس پر سایہ کناں تھی۔ جب آپ درخت کے قریب پہنچے تو اہل قافلہ درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ازراہِ ادب سب سے پیچھے بیٹھنا گوارا کیا جہاں دھوپ تھی اور درخت کاسایہ ختم ہو جاتا تھا۔ فوراً درخت نے جھک کر آپ ﷺکے سراقدس پر سایہ کردیا۔”البدایہ والنہایہ“ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بے تابانہ آپ کے سراقدس پر جھک گئیں۔ یہ دیکھ کر ”بحیرا“ فرطِ محبت سے مغلوب ہو کر بے ساختہ پکار اٹھا ”دیکھ لو درخت کا سایہ ان کی طرف جھک گیا ہے“۔آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے۔۔۔دیدہ کور کو کیا آئے نظر‘ کیا دیکھےامام بیہقی نے اس واقعہ کو قدرے اختلاف کے ساتھ روایت کیاہے۔ ان کیمطابق ”بحیرا“ نے اہل قافلہ کو صومعہ کے اندر کھانے پر مدعو کیا۔ تمام قافلے والے چلے گئے لیکن حضو ر ﷺ اسی درخت کے نیچے تشریف فرما رہے۔ جب” بحیرا“کو حضور ﷺ نظر نہ آئے تواس نے کہا ”جس ہستی کے اعزاز میں یہ تقریب برپا کی گئی ہے وہ ہستی نظر نہیں آ رہی۔“

یہ سنتے ہی ایک قریشی یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ لات و عزیٰ کی قسم! ہمارے لئے لائق شرم ہے کہ ہم تو کھانا کھا لیں اور عبداللہ بن عبدالمطلب کا فرزند رہ جائے“ اور حضورﷺ کو اپنی آغوش میں اٹھا لایا۔ ابونعیم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیاہے کہ جب آپﷺ گرجاگھرمیں داخل ہوئے توگرجا گھرنورِنبوت سے جگمگا اٹھا۔ شیخ عبدالرحمن جامی نے کیا خوب کہا ہے محمد احمد و محمود‘ وی را خالقش بستود۔۔۔زو شد بود ہر موجود‘ زو شد دیدہ ہا بیناترجمہ :محمد مصطفی احمد اور محمود ہیں۔ آپ ﷺکو خالق نے اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا۔ آپ ہی کی بدولت ہر چیزموجود ہے۔

آپ ﷺہی کی بدولت ظلمتیں کافور ہوئیں اورہماری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں۔عصرحاضر میں سائنس بھی شجر و حجر میں شعور کے موجود ہونے کو تسلیم کرتی ہے اوراحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ ارشادنبوی ہے کہ ”احد“ (Ohud) پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ جبکہ ’عیر“ پہا ڑ ہم سے بغض رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ میں اس پتھر کو پہچانتاہوں جو اعلان نبوت سے پہلے مجھے سلام کیاکرتا تھا۔القصہ مختصر ضیافت کے بعد ”بحیرا“ نے حضور اکرم ﷺ سے سوال و جواب کی ایک نشست کی اور جناب ابو طالب سے درخواست کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو واپس لے جائیں‘ اگر رومی انہیں دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے انہیں پہچان کر ان کی جان کے درپے ہوں گے۔یوں ابوطالب حضور کو لے کر مکہ مکرمہ پلٹ آئے یا واپس بھجوا دیا۔قافلہ اس مقام سے روانہ ہو گیا لیکن صاحبِ ایمان درخت آج بھی اس مقام پر ترو تازہ ہے۔ موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت مشرقی اردن میں صفوی کے مقام پر وادی سرہان کے قریب واقعہ ہے۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے آثار بھی تلاش کرلئے ہیں اور اس درخت کی ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ یہ سینکڑوں مربع میل تک لق و دق صحرا میں اگا ہوا تنہا درخت ہے۔ مقام غور ہے کہ اگر ایک درخت کو حب رسول ﷺکی بدولت حیاتِ دائمی نصیب ہوسکتی ہے تو اس دل پر موت کیسے وارد ہوسکتی ہے جو محبتِ رسول ﷺ کاگنجینہ بن جائے۔اس درخت کی مزید تفصیل کے لئے الوفا یا احوالِ المصطفیٰ(ابن جوزی)‘ سیرت حلبیہ‘ الخصائص الکبریٰ‘ المواہب اللّدنیہ اور مدارج النبوہ وغیرہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چشمانِ سر سے ہمیں اس درخت کی زیارت کاموقع عطا فرمائے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button