ایک سجدہ کی کہانی جس نے قسمت ہی بدل دی
وزیر آباد اور مسجد وزیر خان کا نام کسی پاکستانی کے لیے اجنبی نہیں۔ لیکن اس شہر اور مسجد کو بسانے اور بنانے والے نواب وزیر خان کے حالات سے شاید بہت کم لوگ آگاہ ہوں گے۔نواب وزیر خان کا اصل نام علیم الدین انصاری تھا۔ وہ پنجاب کے ایک معمولی سے گاؤں میں جو وزیر آباد کے قریب ہی واقع تھا۔ ایک معمولی درجہ کے حکیم تھے۔ اس گاؤں میں اور بھی حکیم موجود تھے جن کی حکمت حکیم صاحب کے مقابلے میں خوب چلتی تھی۔ اس لیے وہ خوب خوشحال تھے۔حکیم علیم الدین بے حد متقی، قناعت پسند، اللہ توکل والے صابر و شاکر آدمی تھے۔
جو کبھی اپنی مسرت اور تنگ دستی اور اپنی ناقدری پر جلتے کڑھتے نہیں تھے۔ بلکہ اسے مولا کی مرضی سمجھتے ہوئے ہر دم اللہ کے شکر گزار بنے رہتے تھے۔ حکیم صاحب کی بیوی اس صورتحال پر ہمیشہ شاکی رہتیں۔ ان سے لڑتی جھگڑتیں اور اکثر ان کی کتابیں اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیتیں کہ کیا فائدہ تمہاری اس حکمت کا جو گھر کا چولہا بھی نہ جلا سکے۔ نیک دل حکیم صاحب جواباً بیوی سے الجھنے کے انہیں صبر و شکر کی تلقین کرتے۔ اچھے دنوں کی امید دلاتے جو آکر ہی نہ دے رہ تھے۔ایک مرتبہ حکیم صاحب کے گھر کئی دنوں تک چولھا نہ جلا، ان کے خاندان پر فاقے گزرنے لگے اور ان کی بیوی کے طعنے دراز ہوتے گئے تو حکیم صاحب شدید آزردگی کی حالت میں گاؤں کی مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں انہوں نے نمازِ عشا ادا کی اور گھر جانے کے بجائے وہیں رک گئے۔ نمازِ تہجد کے وقت انہوں نے اٹھ کر وضو کیا۔ نماز ادا کی اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر رونے گڑ گڑانے لگے کہ ” بارِ الٰہی! میری ایسی ناقدری کیوں ہورہی ہے؟ میں ایسی قدر ناشناسی کا شکار کیوں ہوں…؟”نماز فجر تک حکیم صاحب اسی طرح اللہ کے حضور روتے گڑگڑاتے اور اس سے اس کے فضل و کرم کی بھیک مانگتے رہے۔ پھر جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو سجدے کی جگہ ان کے آنسوؤں سے بھیگ چکی تھی۔ ان کا دل بے حد مطمئن اور ایک طرح کا روحانی سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس دوران میں دوسرے نمازی بھی مسجد میں آنا شروع ہوچکے تھے۔ حکیم صاحب نے ان کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی اور گھر آگئے۔