ریاست مدینہ اور ناانصافیاں ۔۔۔ تحریر: روہیل اکبر
آج ہمارے حکمران ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں اور انکے ریاستی نمائندے انکے اعلانات پر پانی پھیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں پنجاب کا ایوان ناانصافیوں کا گڑھ بن چکا ہے انہی ناانصافیوں کی بدولت ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوچکا ہے پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت میں شامل انکے اتحادیوں نے کس ہوشیاری سے پورے نظام کو ماموں بناتے ہوئے گجرات،منڈی بہائوالدین اور بہاولپور کے اپنے تقریبا تین سو کے قریب ووٹروں کو گریڈ17 اور 18سے نواز دیا گیا ہے جبکہ سابق رکن پنجاب اسمبلی سیمل اور معصوم بچیوں پر مظالم کے خلاف افشاں لطیف ابھی تک حصول انصاف کی منتظر ہے
موجودہ حکومت کو دو سال گذر گئے اور ابھی تک سوائے باتوں کے بتنگڑ کے کچھ نظر نہیں آرہا ریاست مدینہ کے والی کی ایک بات سن لیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! کونسا شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے اور کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے، یا اس سے مصیبت دور کرے،یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے، اور اگر میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلوں تو یہ مجھے اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری ہونے تک اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ جس ہستی کا نام لیکر ریاست بنانے جارہے ہیں کیا انکے کسی ایک قول پر بھی ہم عمل کررہے ہیں اب ایک قصہ اس شخصیت کا بھی سن لیں جس کے نام سے قیصرو قصری کانپ جاتے تھے کہ انکا طرز حکمرانی کیسا تھا ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے دور میں ایک
بدو آپ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے ملنے مدینے کو چلا، جب مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا ساتھ میں حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، بیوی کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام تھا، جب آپ نے دیکھا کے دور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ پتہ کرو کون ہے جب پوچھا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں، آپ گئے اور پوچھا تو بھی نہیں بتایا آپ نے کہا کہ
اندر سے کراہنے کی آواز آتی ہے کوئی درد سے چیخ رہا ہے بتاؤ بات کیا ہے تو اس نے بتایا کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں میں غریب ہوں اور صبح مل کے چلا جاؤں گا، رات زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، بیوی امید سے ہے اور وقت قریب آن پہنچا ہے تو آپ جلدی سے پلٹ کر جانے لگے اور کہا کہ ٹھہرو میں آتا ہوں، آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ سے مخاطب ہوئے کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر مل رہا ہو تو لے لو گی زوجہ نے کہا کیوں نہیں تو آپ نے کہا چلو میرے دوست کی بیوی حاملہ ہے،وقت قریب ہے چلو اور جو
سامان پکڑنا ہے ساتھ پکڑ لو، آپ کی بیوی نے گھی اور دانے پکڑ لئے اور آپ کو لکڑیاں پکڑنے کا کہا آپ نے لکڑیاں اپنے اوپر لاد لیں سبحان اللہ (یہ کوئی کونسلر، ناظم، ایم پی اے، ایم این اے ،وزیر،وزیراعلی اور وزیراعظم نہیں یہ اس کا ذکر ہو رہا ہے دوستو جو کہ 22 لاکھ مربع میل کا حکمران ہے جس کے قوانین آج بھی چلتے ہیں جو عمر فاروق ہے) جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو فوراً کام میں لگ گئے بدو ایسے حکم چلاتا جیسے آپ شہر کے کوئی چوکی دار یا غلام ہیں کبھی پانی مانگتا تو آپ دوڑے دوڑے پانی دیتے کبھی پریشانی میں پوچھتا کہ تیری بیوی کو یہ کام آتا بھی ہے تو آپ جواب دیتے
جبکہ اس کو کیا پتہ کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق خود ہیں جب اندر بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کی زوجہ نے آواز لگائی یا امیر المومنین بیٹا ہوا ہے تو یا امیر المومنین کی صدا سن کر اس بدو کی تو جیسے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور بے اختیار پوچھنے لگا کیا آپ ہی عمرفاروق امیر المومنین ہیں؟؟ آپ عمر ہیں؟ وہی جس کے نام سے قیصر و کسریٰ کانپتے ہیں آپ وہ ہی ہیں وہی والے عمر ہیں ناں جس کے بارے میں حضرت علی نے کہا کہ آپ کے لیے دعا کرتا ہوں اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا مانگ کر اسلام کے لئے مانگا وہی والے نا؟؟تب آپ نے کہا ہاں ہاں میں ہی ہوں اس
نے کہا کہ ایک غریب کی بیوی کے کام کاج میں آپ کی بیوی،خاتون اول لگی ہوئی ہے اور دھوئیں کے پاس آپ نے اپنی داڑھی لپیٹ لی اور میری خدمت کرتے رہے؟ تو سیدنا عمر رو پڑے اس بدو کو گلے سے لگایا اور کہا تجھے پتا نہیں توں کہا آیا ہے؟؟ یہ مدینہ ہے میرے آقا کا مدینہ یہاں امیروں کے نہیں غریبوں کے استقبال ہوتے ہیں، غریبوں کو عزتیں ملتی ہیں، مزدور اور یتیم بھی سر اٹھا کر چلتے ہیں!!زرا سوچیئے گا کہ ہم آج جس ریاست مدینہ کی بات کررہے ہیں کیاوہی والی ریاست مدینہ ہے یا ہم نے نعوذ باللہ کسی اور چیز کا نام ریاست مدینہ رکھ چھوڑا ہے جہاں صرف اور صرف کرپشن ہوگی ،چور بازارای ہوگی ،اقربا پروری ہوگی اور ہر طرف لوٹ مار ہی لوٹ مار ہوگی رہی بات پنجاب اسمبلی میں بھرتی ہونے والے افراد کی اس پر انشاء اللہ پورا کالم پوری تفصیل سے ہوگا