پروان چڑھتی حیوانیت اور ہماری زمہ داریاں ۔۔۔ تحریر: شاہدمشتاق
اس ہفتے دو واقعات ایسے ہوئے کہ جس سے طبیعت سست اور اداس ہوگئی ہے پہلا واقعہ اپ کو بعد میں بتاوں گا پہلے دوسرا واقعہ پڑھئے۔جنازہ ٹھیک گیارہ بجے اتھالیاگیاتھا ، وجہ موسم کی خرابی سے ذیادہ اکتائے ہوئے لوگ تھے ، جلدی اتنی تھی کہ قبر تیار ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا گیا ، مجھ سمیت کوئی بیس پچیس افراد ہونگے جنہوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی ، گلی کے دکانداروں نے بھی شائد جنازے میں شامل ہونا ضروری نہیں سمجھا تھا جبھی اکثر دکانیں کھلی ہوئی تھیں ۔اتفاق سے مجھے اس جنازے میں شامل ہونے کا موقع ملا تھا، میت خاتون تھیں چھوٹے چھوٹے دو تین بچے بھی تھے جو گلی میں دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ان معصوموں کو خبر ہی نہیں تھی کہ ان پہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ کئی عوارض کا شکار تھیں ، مسلسل پریشانیوں نے دماغی توازن بھی خراب کررکھا تھا ، دو بھائیوں کی اکلوتی بہںن اچھے بھلے گھر سے بیاہ کر آئی تو آتے ہی سسرال کی اصلیت کھل کر سامنے آگئی ، شوہر مارتا پیٹتا اور جائیداد سے حصے کا مطالبہ کرتا ، بھائی بے حس نکلے پھوٹی کوڑی تک نہ دی ، کبھی ادھر کبھی ادھر در بدرخوار ہوتی رہی۔اپنوں کی بے حسی کے ساتھ اندر کی گھٹن بھی بڑھتی رہی تو نتیجہ کئی زہنی و جسمانی بیماریوں کی صورت نکلا ، شوہر سارا دن کمرے میں بند کرکے کام پہ چلاجاتا ، ماں اور بچوں نے کچھ کھایا ہے کون پوچھے ؟ پھر شائد قدرت کو اس پہ رحم آگیا اور کل رات اس کی وفات ہوگئی ، ماں تو مر گئی مگر ایک اور امتحان تو اب شروع ہوا ہے اور وہ ہے معصوم بچوں کا ، جس نے بیوی کی قدر نہ کی وہ لالچی انسان بچوں کو کیا سنبھالے گا ؟ اور ماموں تو پہلے ہی جان چھڑانے کے چکر میں تھےسو چھوٹ گئی رہ گئے بچے تو ان کا اللہ مالک ہے ۔خدارا اللہ نے اگر بہن یا بیٹی جیسی رحمت ، نعمت اور برکت سے نوازا ہے تو اس کی قدر کریں، اسے کھلانا پلانا اور پہنانا کوئی احسان نہیں، اچھے گھروں میں ان کی شادیاں کریں ، جائیداد میں حصہ بھی دیں اور اگر بہنیں غریب ہوں تو انکی مدد کریں اور ان کے لئے اپنے دل اور گھر کو کشادہ رکھیں انہیں گھر برسانے کی تلقین ضرور کریں لیکن کسی انہونی کی صورت اپنے دروازے بند نہ کریں ۔پہلا واقعہ سیالکوٹ کےایک گاوں میں پیش آیا جس نے انسانیت کو شرمندہ کردیا ، سات سال کی پیاری سی معصوم بچی ” آئت نور ” محلے میں ہی ٹیوشن پڑھنے گئی ، میں نے اس بچی کی کچھ تصاویر دیکھی ہیں بالکل گڑیا سی ننھی پری لگتی ہے جسے محلے کے ہی ایک شقی القلب درندے نے اغواء کیا اور بعد از زیادتی ثبوت مٹانے کے لیے بڑی بے دردی سے قتل کردیا ۔آہ ۔۔۔ یہ ننھی سی چھوٹی معصوم سی شہزادی اور ہوس کا پجاری نوجوان درندہ، بچی پہ کیا گزری ہوگی ، کس اذیت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا موت سے پہلے اسے ، اچھا ہوا جو بچی زندہ نہیں رہی ورنہ ساری زندگی اسے ایک اور بڑی اذیت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا، والدین اور پولیس نے بچی کو تلاش کرنا شروع کیا تو آدھی رات کے قریب بچی کی کچلی مسلی لاش محلے کے ہی ایک گھر سے ملی۔ اس کے بعد ماں باپ پہ جوگزری ہوگی وہ ایک الگ لمبی کہانی ہے میں نے یہ چند سطریں ہی بڑی ہمت مجتمع کرکے لکھی ہیں ، ایسے واقعات لکھتے ہوئے ایک بچی کا باپ ہونے کے ناطے تکلیف تو ہوتی ہی ہے ساتھ میں شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہےکہ ہمارے اپنے معاشرے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے ، کاش کوئی پولیس افسر ان درندوں کو موقع پر ہی نشان عبرت بنادیا کرے ۔
میری کچھ تجاویز ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ایسے شرمناک سانحات کو ہونے سے کافی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔ والدین کو بچوں کے تحفظ کو ہرممکن یقینی بنانا چاہئے سکول ، ٹیوشن یا گھر سے باہر جاتے ہوئے کوئی بڑا لازمی ساتھ ہونا چاہئے ، ایسے سکولوں یا اداروں کا انتخاب کریں جہاں اچھے کردار کے حامل اساتذہ ہوں اور مخلوط طرز تعلیم سے گریز کریں ۔ہر گاوں، گلی، محلے کے داخلی و خارجی راستوں پر سی سی ٹی وی کیمروں کا انتظام کریں اور ممکن ہو تو کسی بزرگ چوکیدار کو رکھیں جو بچوں کے ساتھ اور ہر آنے جانے والے پر سخت نظر رکھے ، نوجوان لڑکوں کو ایسی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں جو اپنے آس پاس اور محلے میں مشکوک افراد پہ نظر رکھیں ۔بچوں کو پراعتماد بنائیں انہیں سکھائیں گھر سے باہر کسی بھی اپنے یا اجنبی سے میل جول نہیں رکھنا ، کسی سے کوئی چیز لے کر کھائیں نہ اکیلے کسی کے ساتھ کہیں بھی جائیں ۔اس کے بعد سب سے اہم چیز ہمیں اپنے معاشرے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہوگی بے حسی کی چادر جو ہم سب اوڑھے بیٹھے ہیں اسے اتار پھینکنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہم ایسے ہی مسلے کچلے لاشے اٹھاتے اور روتے رہینگے ۔