عمران خان کے مشکل فیصلوں کو ثمر ملنے لگا، اسد عمر نے قوم کو بڑی خوشخبری سنادی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل چوتھے ماہ اکتوبر میں بھی سرپلس رہا اور مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 1.6 فیصد یا 38 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تک بڑھ گیا۔اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ ماہانہ بنیاد پر ستمبر کے 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے مقابلے 547 فیصد بڑھا۔مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ ‘اس سرپلس کی وجہ ترسیلات زر میں مستقل اضافہ اور تجارتی خسارے میں کمی ہونا ہے’۔رواں مالی سال کے پہلے ماہ جولائی سے اب تک مجموعی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب 20 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس نے اسی عرصے میں

گزشتہ برس ریکارڈ کیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے خسارے کو پلٹ کر رکھ دیا۔ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف اکنامسٹ سید عاطف ظفر نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ اکتوبر کے مہینے میں مسلسل چوتھے ماہ سرپلس رہا، یہ بہتری تجارتی خسارے میں بہتری کے باعث دیکھی گئی کیوں کہ درآمدات میں ماہانہ بنیاد پر 9 فیصد کمی جبکہ برآمدات میں ایک فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر کا حجم بھی اچھا ہے جو 2 ارب 28 کروڑ ڈالر ہے۔ماہانہ بنیادوں پر تجارتی خسارہ اکتوبر میں 20 فیصد کمی کے بعد ایک ارب 49 کروڑ ڈالر رہا جو ستمبر میں ایک ارب 86 کروڑ ڈالر تھا۔وفاقی وزیر منصوبہ و ترقی اسد عمر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز، وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کو سہارا دیا جائے اور ملک کے سب سے پسماندہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کی ترقیاتی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے بحیثیت مجموعی ایک مربوط ترقیاتی پروگرام بنایا جائے کیونکہ کئی چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔وزیر منصوبہ بندی و ترقی کا کہنا تھا کہ نوجوان اس ملک کا سرمایہ ہیں اور ان کے لیے روزگار اور آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے تو جنوبی بلوچستان میں آمدن کا ذریعہ ذراعت ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنوبی بلوچستان میں زراعت

کے لیے پانی کی ضرورت ہے، وہاں پانی کے لیے بڑے بڑے دریا تو ہیں نہیں لہٰذا وہاں ڈیم بنانے ہیں جو پہلے ہوا بھی ہے لیکن اس سے آگے جو زراعت ہونی تھی وہ نہیں ہو پائی اور زراعت اس لیے نہیں ہو پائی کیونکہ وہاں ڈیم نہیں بنے ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ آپ جب بھی چاہتے ہیں کہ کسان کو اس کی پیداوار کی پوری قیمت اور معاوضہ ملے تو اس کی اجناس کے استعمال کا ذریعہ اگر وہیں ہو تو سب سے زیادہ بہتر قیمت اس وقت مل سکتی ہے اور اس کے لیے صنعت کی ضرورت ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button