پی ڈی ایم اجلاس میں نواز شریف کے بیانیے پر گرما گرم بحث، پیپلزپارٹی نے اپنا فیصلہ سنادیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سابق صدر آصف علی زرداری نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اجلاس میں کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کا وہی فیصلہ ہوگا جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر کیا جائے گا۔اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا اہم اجلاس سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت ہوا جس میں سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے بھی شرکت کی۔نواز شریف کی تقریر سن کر دھچکا لگا،

فوجی قیادت کا نام لینا ان کا اپنا فیصلہ تھا: بلاولاجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزيشن جماعتیں جلسوں کا سلسلہ جاری رکھیں گی، 22 نومبر کو پشاور، 30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ ہوگا۔دوسری جانب اجلاس میں نواز شریف کے بیانیے پر گرما گرم بحث ہوئی۔ اس موقع پر آصف زرداری نے کہا ہےکہ پیپلزپارٹی کا وہی فیصلہ ہوگا جو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پرکیا جائے گا۔ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے پاس نوازشریف کا بیانیہ قبول کرنے کے علاوہ راستہ کیا ہے؟ راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اگر جلسوں ميں اسٹیبلشمنٹ کے بجائے افراد کے نام لینے ہیں تو پی ڈی ایم کا نیا اجلاس بُلاکر طے کرنا ہوگا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ نوازشریف اور آصف زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے دیگر قائدین نے اجلاس میں شرکت کی۔انہوں نے بتایا کہ ’اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا، یہ بات سامنے آئی کہ آج پاکستان سنگین معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ’پی ڈی ایم نےتحریک کوآگے لےجانےکی بات کی ہے، جس کے تحت ملک بھر جلسوں کے انعقاد پر مشاورت جبکہ میثاق طے کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا‘۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس 13 نومبر کو طلب کیا گیا ہے جس میں تمام جماعتیں اپنی تجاویز لے کر آئیں گی جن کی روشنی میں متفقہ فیصلہ کیا جائے گا، بعد ازاں 14 نومبر کو اسلام آباد میں

دوبارہ اجلاس ہوگا‘۔پی ڈی ایم کے صدر نے کا کہنا تھا کہ ’اجلاس میں مریم نواز اور شوہر کے ساتھ کراچی میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی گئی جبکہ آئی جی کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی بھی مذمت کی گئی، تین ہفتے گزر جانے کے باوجود کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی جبکہ دس روز کا اعلان کیا گیا تھا‘۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ’وزیرداخلہ اعجاز شاہ کے بیان پر شدید احتجاج کیا گیا اور اُن کے بیان کو دھمکی کے طور پر دیکھا گیا، ماضی میں اےاین پی رہنماؤں کوقتل کیا گیا، اب دھمکی دی جارہی ہے کہ ایسامسلم لیگ ن کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے، اگر کوئی حادثہ ہوا تو اصل دہشت گرد کے لیے تحقیق کی ضرورت نہیں ہے‘۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کا نام لینا یا نہ لینا کوئی بڑی بات نہیں، سب کومعلوم ہےاسٹیبلشمنٹ سے مرادکیا ہوتی ہے، جب وزیراعظم اور وزیروں کانام لیاجاتاہے تو اداروں کانام لینےمیں مضائقہ نہیں ہے‘۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button