سعودی عرب اور پاکستان میں کچھ دُشمن طاقتیں منظم انداز سے اختلافات پیدا کرنا چاہتی ہیں، اہم سعودی شخصیت کا پیغام

ریاض(نیوز ڈیسک) پاکستان میں 2001ء سے 2009ء تک سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے معروف سعودی صحافی ڈاکٹر علی عواض العسیری نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ دُشمن طاقتیں منظم انداز سے اختلافات پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹر العسیری نے اُردو نیوز کے لیے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قیادت نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق ذرائع ابلاغ میں ہونے والی قیاس آرائیوں کوانتہائی سلیقے سے دو ٹوک انداز میں مسترد کیا ہے۔اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اپنے متنازع بیان

کی وضاحت، وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس کی توثیق اور بعد ازاں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے فوجی مقاصد کی خاطر کیے گئے دورہ ریاض نے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان غیر معمولی قریبی تعلقات کو مزید مضبوط بنا کر ثابت کیا ہے کہ یہ تعلقات وقتی جوار بھاٹے کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔تاہم یہ امر واضح ہے کہ دشمن قوتوں نے ایک منظم طریقے سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔اس کا آغاز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اسلامی تعاون کی تنظیم ’او آئی سی‘ کے کشمیر پر کردار سے متعلق تنقیدی بیان کو غیرمعمولی ہوا دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ریاض اور اسلام آباد کی راہیں جدا ہو گئی ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی معاشی امداد سے انکار کا خود ساختہ پراپیگنڈا گھڑ کر اضافی جواز تراشا گیا۔ پھر جنرل باجوہ کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق سعودی عرب آمد کو غلط انداز میں ’ڈیمج کنڑول‘ کی کوشش بنا کر پیش کیا گیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کے قطعی فوجی مقاصد کے لیے دورہ ریاض میں ان کی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بغیر واپسی کو ’شاہی دھتکار‘ سے تعبیر کیا گیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خود ہی یقین دہانی کراتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی یا سعودی عرب نے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ واپس کرنے کا کہتے ہوئے تیل سپلائی بند کر دی ہے۔ ’یہ سب باتیں قیاس آرائیاں ہیں۔‘گذشتہ ہفتے شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ’ایسا کوئی فیصلہ نہیں

کیا گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب کے قلبی تعلقات ہیں جن کا مشترکہ ہدف امن کا فروغ ہے۔‘گذشتہ مہینے کے اوائل میں شاہ محمود قریشی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’سعودی عرب، پاکستانیوں کے احساسات اور امنگوں کا اعتراف کرتا ہے‘ ۔اس کے باوجود مخصوص ذرائع ابلاغ میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رہا جن میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب کی طرف اقتصادی تعاون سے انکار کے بعد چین، پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے آ رہا ہے۔جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے ایک ہی روز بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی بروقت اقدام کرتے ہوئے پاکستان،

سعودی عرب تعلقات میں تناوٴ سے متعلق قیاس آرائیوں کو ’قطعی طور پر بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ بالآخر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزاہ خالد بن سلمان نے قیاس آرائیاں پھیلانے والوں کو اپنی اس ٹویٹ کے ذریعے جواب دیا: ’اپنے بھائی پاکستانی فوج کے چیف آف سٹاف عزت مآب جنرل قمر جاوید باجوہ سے میری ملاقات ہوئی۔ہم نے دو طرفہ تعلقات، فوجی تعاون اور خطے کی سکیورٹی محفوظ بنانے سے متعلق اپنے مشترکہ ہدف پر تبادلہ خیال کیا۔‘ ڈاکٹر العسیری نے مزید لکھا کہ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں اور لاکھوں پاکستانی ہر

سال مکہ اور مدینہ اظہار عقیدت کے لیے سفر اختیار کرتے ہیں۔ میں پاکستان میں دس برس سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔میں فخریہ دعویٰ کرتا ہوں کہ مسلم امت اور سعودی عرب کے لیے پاکستانی عوام کی محبت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان، سعودی عرب تعلقات سبوتاڑ کرنے کی حالیہ سازش سے سبق ملتا ہے کہ ہم ان تعلقات کا سیاسی بیانیہ ایسے ترتیب دیں جو دونوں ملکوں کے عوام کی امنگوں اور دیرپا دفاعی تعاون سے میل کھاتا ہو۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی تعاون باہمی طور پر مربوط علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی تشکیل دینے کا تقاضا کرتا

ہے۔سعودی عرب، پاکستان کو اہم مسلمان ملک سمجھتا ہے۔ میں یہ بات پاکستان سے متعلق اپنے عاجزانہ علم اور بطورایک سعودی شہری کہہ رہا ہوں جو جو تقریبا نصف دہائی قبل سفارتی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دیرینہ دفاعی تعلقات 1982 کو طے پانے والے باہمی سکیورٹی تعاون معاہدے کی روشنی میں استوار ہیں۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان، مملکت کو فوجی تربیت اور دفاعی پیداواری صلاحیت کے ضمن میں معاونت فراہم کرتا ہے۔پاکستانی فوجی دستے، سعودی عرب میں تربیتی اور مشاورتی امور کی انجام دہی کے لیے مملکت میں تعینات ہیں۔ پاکستان فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل

شریف اسلامی ملکوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاض میں تشکیل دیے گئے 41 رکنی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ ہیں، جو دونوں ملکوں کے قریبی فوجی تعاون کی عکاسی کرتا ہے۔ جنرل باجوہ کے حالیہ دورہ ریاض سے دونوں ملکوں کے عوام کی جانب سے سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی باہمی کوششوں کی تائید ہوتی ہے۔دونوں ملکوں کے باہمی فوجی روابط کی طرح عوامی سطح پر تعلقات بھی تمام شک وشبے سے بالا تر ہیں۔ اسلامی عقیدہ دراصل پاکستانی اور سعودی ثقافت میں رچا بسا ہوا ہے۔ اس لئے دونوں ملکوں کو اپنی دوطرفہ اور علاقائی پالیسیاں اور حکمت عملی انتہائی چابک دستی سے

تشکیل دینی چاہیں تاکہ ان میں اختلافات پیدا کرنے والی دشمن قوتیں ناکامی سے دوچار ہوں۔حالیہ بحران سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حساس موضوعات پر ’پبلک ڈپلومیسی‘ سے گریز کیا جائے تاکہ پاکستان اور سعودی عرب کی تزویراتی شراکت کے لئے ضرر رساں مخصوص مفادات کو عمومی ایجنڈے پر حاوی ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ مخصوص مفادات عوام کے بجائے متعلقہ حکومتوں یا ملکوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو سعودی عرب میں خدمات سرانجام دینے والی ورک فورس کی صلاحیتوں میں تنوع کے لیے کام کرنا ہو گا تاکہ وہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کو روبعمل لانے میں

اپنا کردار ادا کر سکیں۔مختصرا یہ کہ سیاسی تعلقات محفوظ اور سبک رفتار طریقے سے آگے بڑھ رہے ہوں تو ایسے میں معاشی اور دوسرے شعبوں میں تعاون بنیادی حقیقت بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر العسیری نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ”دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار“ کے عنوان سے لکھی جانے والی کتاب کے مصنف ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button