کیا جمہوریت میں ہمیں احتجاج کا حق ہے یا نہیں؟عمران خان کا چیف جسٹس آف پاکستان کو خط

پشاور (نیوز ڈیسک)سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ وہ بتائے کہ کیا جمہوریت میں ہمیں احتجاج کا حق ہے یا نہیں،عدلیہ سےپوچھتا ہوں کیا ہم یہ سب بھیڑ بکریوں کی طرح مان لیں گے،چیف جسٹس صورتحال واضح کریں۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے پشاور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مردان میں شہید کارکن سید احمد کے گھر گیا۔لاہور میں فیصل عباس کے گھر پارٹی کے دیگر ذمہ داران گئے،لاہور میں فیصل عباس کو روای پل سے نیچے پھینکا گیا۔

یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی آزاد کے جذبے سے نکلے تھے۔کارکنوں کے اہلخانہ کو جتنا خراجِ تحسین پیش کریں وہ کم ہے۔ کرپٹ ترین مافیا کو اس ملک میں بٹھایا گیا۔سازش کے تحت حکومت کو گرایا گیا، بیرون ملک سے امپورٹڈ حکومت ہم پر مسلط کی گئی۔چوروں کو ہمارے اوپر بٹھا دیا گیا۔ یہ ظلم ہے 30 سے سال سے جو لوگوں کو کھا رہے تھے ان کو مسلط کیا گیا،کیا ان کے خلاف ہمیں احتجاج کا بھی حق نہیں۔ آزادی مارچ ہمارا پر امن احتجاج تھا۔پر امن احتجاج قوم نہیں کر سکتی تو اسے زندہ ہی نہیں رہنا چاہئیے،قوم غصے میں ہے کہ ہمیں پر امن احتجاج نہیں کرنے دیا گیا۔ پولیس نے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں دیکھا۔لاہور میں وکیلوں کو بس سے نکال کر مارا گیا۔عمر ایوب جو وفاقی وزیر تھے وہ پولیس سے بات کرنے گئے تھے ان کو بھی بےدردی سے مارا گیا۔کون سی پولیس کے جو بچوں اور عورتوں کو اس طرح سے مارتی ہے۔لبرٹی چوک میں فیملیز باہر نکلیں تو ان ہر شیلنگ کی گئی۔کراچی میں جو لوگ نکلے ان پر تشدد کیا گیا۔شہباز شریف، راناثناء اللہ اور حمزہ شہباز یزید کے ماننے والے لوگ تھے۔عمران خان نے مزید کہا کہ ہمارے کارکن اور پارٹی رہنما مایوس ہیں کہ آپ اسلام آباد میں بیٹھے کیوں نہیں، لیکن میں آپکو ایک بات بتا دوں کہ میں نے 126 دن دھرنا دیے۔

جب میں وہاں پہنچا تو علم ہو گیا کہ اب حالات کس طرف جا رہے ہیں۔اس رات خون خرابہ ہونے والا تھا۔لوگوں نے پولیس کی دہشتگردی دیکھی تو لوگ لڑنے کو تیار ہو گئے تھے۔اس وقت عوام میں شدید غصہ پایا جا رہا تھا، اگر میں اس دن بیٹھ جاتا تو بہت خون خرابہ ہونا تھا، پولیس کے خلاف نفرت بڑھنی تھی، پولیس بھی ہماری اپنی ہے ، پولیس کا بھی قصور نہیں۔اگر وہاں خون خرابہ ہوتا تو ملک میں انتشار بڑھنا تھا جس سے میرے ملک کو نقصان ہونا تھا۔یہ نہ سمھیں کہ یہ میری کمزوری تھی یا میری اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوئی۔میں نے اس وقت صرف یہ سوچا کہ میرے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔

میں واضح کر دوں کہ اگر کسی کا خیال ہے کہ میں آرام سے مذاکرات کر لوں گا اور امپورٹڈ حکومت کو تسلیم کر لوں گا تو اس غلطی فہمی میں رہیں۔مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں، مجھے صرف اپنے ملک کی پرواہ ہے۔میں ایک بار پھر واضح کر دوں کہ میں 6 دن دے رہا ہوں اس دوران انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہوا تیاری کے ساتھ نکلوں گا۔عمران خان نے مزید کہا کہ اس بار پوری تیاری کے ساتھ آئیں گے،اگر اس بار حکومت نے وہی حرکتیں دہرائیں تو پھر ملک جس جانب جائے گا اس کے ذمہ دار یہ خود ہوں گے۔عمران خان کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے کہ وہ بتائے کہ کیا جمہوریت میں ہمیں احتجاج کا حق ہے یا نہیں،عدلیہ سے پوچھتا ہوں کیا ہم یہ سب بھیڑ بکریوں کی طرح مان لیں گے،چیف جسٹس صورتحال واضح کریں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button