وزیراعظم استعفیٰ دینگے یا نہیں ؟ اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت کا دوٹوک ردعمل سامنے آگیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک حکومت اور جمہوری نظام چل رہا ہے جہاں فوج اور سول قیادت مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اپوزیشن اور پاکستان دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو اگر نہیں چھیڑا گیا اور سیاسی قیادت اور فوج میں دراڑیں نہیں ڈالی گئیں تو پاکستان کو کامیابی سے نہیں روک سکتے۔اسلام آباد میں وفاقی وزرا سینیٹر شبلی فراز، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اپوزیشن کی گزشتہ روز کی آل پارٹیز کانفرنس اور اس کی تقاریر پر جواب دیا۔

سینیٹر شبلی فراز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ نواز شریف سے لیکر تمام اپوزیشن رہنماوں کی تقاریر کو براہ راست چلنے دیا جائے، جس پر ہم نے ان کی تعمیل کرتے ہوئے نواز شریف، آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی تقریر نشر ہوئی۔تاہم انہوں نے کہا کہ فضل الرحمٰن کی تقریر ہم نے نہیں روکی بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کی تقریر نہیں جانے دی، ہم تو اس کے لیے تیار تھے کہ وہ بھی بات کرتے۔دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں نواز شریف نے الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور اس انتخابات کو دھاندلی زدہ بنانے کی کوشش کی، تاہم حقائق اور تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہے تب تو وہ الیکشن ٹھیک تھے لیکن شاید انہیں صاف اور شفاف انتخابات کی عدات نہیں ہے اور اس مرتبہ صاف و شفاف الیکشن ہوئے اور اس میں وہ حکومت نہیں بناسکے اور حکومت بنانے جتنی نشستیں حاصل نہیں کرسکے تو اس پر وہ سیخ پا ہیں۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں ہماری جماعت نے یہ بات اٹھائی تھی کہ کچھ حلقوں کی دوبارہ گنتی کی جائے اور چار حلقوں کو کھول دیا جائے اگر وہاں نتائج ٹھیک ہوئے تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے اور حکومت کو بھی چلنے دیں گے لیکن یہ پوری کوشش پر بھی عدالت عالیہ کے فیصلے پر کمیشن بنایا گیا اور تحقیق ہوئی۔پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کو متنازع بنانا ان کا وتیرہ دیکھا ہے، چیزیں ان کی منشا کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے، عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے تو ٹھیک ہے ان کے خلاف دے تو ٹھیک نہیں ہے،

جس انتخابات میں ان کی کامیابی ہو وہ ٹھیک ہے جس میں نہ ہو تو وہ ٹھیک نہیں ہے، اس قسم کی الجھن پھیلانا اور حقائق جانتے ہوئے چیزوں کو متنازع بنانے سے وہ نہ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں نہ ہی جمہوریت کی، اس سے وہ ایک سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو وہ خود اپناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اور کوئی اعتراضات تھے تو ان کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیز میں بھی موجود ہیں تو پھر یہ انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کرتے، انہیں کی حکومت میں انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں اگر انہیں اعتراض تھا تو اس میں شامل کردیتے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button