صدر مملکت کو پورا احترام دینے کی کوشش کی مگر شائد ان کو پسند نہیں آیا، لاہور ہائی کورٹ

لاہور(این این آئی) لاہور ہائیکورٹ نے نو منتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف برداری سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج بروز ( بدھ ) صبح 10بجے سنایاجائے گا ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے نومنتخب وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز کی حلف برداری سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ فاضل عدالت کے حکم پروفاقی حکومت کے وکیل نے صدر مملکت کی جانب سے ہدایات لے کر جمع کروا یا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر نے 6 صفحات پر مشتمل اعتراضی خط صدر پاکستان کو بھیجا،صدر نے گورنر پنجاب کی سفارشات وزیراعظم پاکستان کو بھیجیں۔

انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب،صدر پاکستان اور وزیراعظم کی تمام بات چیت ریکارڈ پر ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کی تاخیر نہیں کی جارہی۔ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے حمزہ شہباز کی درخواست پر اعتراضات اٹھا تے ہوئے موقف اپنایا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے جن اداروں کو فریق بنایا گیا ہے اس کے مطابق درخواست قابل سماعت ہی نہیں ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا بتائیں کس قانون کے تحت یہ سارا معاملہ چل رہا ہے،بتائیں کہ کس قانون کے تحت گورنر یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ انتخاب کیسا ہوا ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ میری گزارش ہے معاملہ ابھی صدر کے پاس زیر التوا ء ہے،آرٹیکل 104 کے تحت گورنر پنجاب اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں،گورنر کے دیکھا کہ انتخاب ٹھیک نہیں ہوا۔چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پریزائیڈنگ افسر تھا گلی محلے کا آدمی نہیں تھا۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کے دوران جھگڑا ہوا،اس معاملے کو تحمل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تحمل کا مظاہرہ ہی کیا،ہائیکورٹ کے آڈر یہ حال کیا،یہ قانون کے ساتھ پچھلے 25 دنون کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کبھی ایسا ہوا کہ ہائوس کے اندر پولیس داخل ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اسمبلی کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے۔مجھے بتا دیں کہ کتنے عرصے تک بغیر وزیر اعلی کے صوبہ چل سکتا ہے۔ایڈووکیٹ جنر ل نے کہا کہ یہ صورت حال پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 15 دن کا کہہ رہے ہیںاس کا مطلب

ہے کہ ہر کام کو 15 دن لگانے ہوں گے۔ایڈووکیٹ جنر ل نے کہا کہ تین دن پہلے عدالتی حکم صدر کو موصول ہوا ،اب وہ اس معاملے کو دیکھیں گے ۔چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ اسکا مطلب تو یہ ہے کہ صدر پہلے سوئے ہوئے تھے اس عدالت نے انہیں جگایا،صوبے میں کوئی حکومت نہیں ہے یہ کیا ہورہا ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہمیں قانون کی حکمرانی کے لیے اکٹھا ہونا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بتائیں کہ صدر نے اس صوبے کے لیے کیا کیا۔ایک صوبہ اتنے دنوں سے بغیر وزیر اعلی کے چل رہا ہے،صدر پاکستان نے لکھ دیا ہے کہ ابھی 15 دن اور ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انہوں نے بالکل ایسا نہیں کہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے کوشش کی کہ صدر پاکستان کو مکمل احترام دیا جائے،لیکن مجھے لگتا ہے انہیں یہ بات پسند نہیں آئی،مجھے بتائیں کہ آنکھ 15 دن کے بعد کھل سکتی ہے یا پھر پہلے بھی کھلے گی۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ نہیں پہلے بھی کھل سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو ان کے پاس مشیر بیٹھے ہیں وہ ان کو مشورے دیتے ہیں،مجھے بتا دیں صدر پاکستان کی کوئی فکر مندانہ کام بتا دیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ عدالت کا حکم گیا تو وہ ا پر قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ فاضل عدالت نے کہا کہ یکم سے

لے کر 22 اپریل تک معاملہ عدالت میں ہے ،اتنی دیر بھی صدر پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ یہ معاملہ اب صدر پاکستان کے پاس چلا گیا ہے،عدالت صدر پاکستان سے نہیں پوچھ سکتی،یہ صورت بہت خطرناک ہے، پارلیمنٹ اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی احتیاط کرتے ہوئے عدالت نے حکم دیا تھا،4 دنوں میں صدر کو ادراک نہیں ہوسکا کہ کیا کرنا ہے،ابھی بھی کہتے ہیں کہ 15 دن لگ سکتے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ معاملہ صدر ہاکستان کے روبرو زیر التو اء ہے ،معاملہ صدر کے روبرو ہونے کی وجہ سے عدالت میں اس کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز کی درخواست میں صدر ، وزیر اعظم اور چیئرمین سینٹ کو فریق بنایا گیا ہے ، یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے ،وزیراعظم نے بھی صدر کو خط لکھا جس کے جواب میں معاملے کو صدر دیکھ رہے ہیں ۔ فاضل عدالت نے کہا کہ آپ بتائیں آئین کی کون سی شق کے تحت گورنر انتخاب کی انکوائری کر سکتا ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ مخالفین صدر پر الزامات لگاتے ہیں مگر وہ آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے عدالت کے حکم پر انتخاب کروایا ۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پی ٹی آئی کی جانب سے منتخب ہوئے

اور بعد میں دوسری طرف مل گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے صبح وقت دیا تھا،میرا خیال تھا کہ شاہد ادھر کچھ احساس ہو کہ عدالت نے آڈر کیا ہوا ہے۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ تھوڑی سی تحمل مزاجی سے دیکھا جائے تو معاملہ حل ہو جائے گا۔فاضل عدالت نے کہا کہ مجھے بتا دیں کہ قانون مین کہاں لکھا ہے گورنر صاحب انکوائری کر سکتے ہیں۔کہیںیہ نہیں لکھا کہ جو نتیجہ آیا وہ درست ہے کہ غلط ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس مرتبہ صورت حال مختلف ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ہی بتایا تھا کہ 1959 میں کیا ہوا تھا۔

جو میڈیا نے کلپس دکھائے کہ ایوان میں کیا ہوا۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا کہ پولیس بلٹ پروف جیکٹ پہن کر گئی ہو،گیلری میں کھڑے ہو کر ووٹنگ کروادی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو ڈپٹی سپیکر کے ساتھ ہوا اس پر بات نہیں کرتے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں سب کا احاطہ کر رہاہوں۔مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ گورنر کسی جگہ بھی حلف لینے سے انکار نہیں کر سکتا۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انکار کی صورت میں کوئی اور حلف لے سکتا ہے۔ فاضل عدالت نے کہا کہ عدالت نے بھی تو یہی کہا کہ کسی اور کو حلف کا کہیں۔یہ کہتے ہین 15 دن دیں، 10 دن اور دیں، یہ کہتے ہیں کون سی جلدی ہے۔فاضل عدالت نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا جو آج بدھ صبح دس بجے سنایا جائے گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button