ننھی مروا کے اہلخانہ سے بے تکے سوالات، ندا یاسر کا مارننگ شو بند کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں اگرچہ بڑی تعداد میں لوگ مارننگ شوز دیکھنے کے شوقین ہیں،لیکن یہی مارننگ شوز مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کی زد میں بھی رہتے ہیں۔معروف مارننگ شو ہوسٹ ندایاسر بھی اس وقت سے تنقید کی زد میں ہیں جب سے انہوں نے کراچی میں قتل ہونے والی مروہ کے اہلخانہ کو پروگرام میں مدعو کیا اور ان سے بے معنی سوالات کیے۔ندا یاسر نے اپنے پروگرام میں کراچی میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی مروا کے والدین کو بلایا اور ان سے اس واقعے کی تفصیلات بتانے کے لیے کہا جو یقینا اُن والدین کے لیے بتانا بہت مشکل تھا۔ندا یاسر نے مروہ کے والد سے متعدد

بار کئی بے معنی سوالات کیے۔جب کہ پروگرام میں موجود مروہ کی دادی اماں مسلسل روتی رہیں۔ندا یاسر بار بار مروہ کے متعلق سوالات پوچھتی رہیں،جس کا جواب دیتے ہوئے ان کے والد بھی آبدیدہ ہو گئے۔گفتگو کے دوران اُن کی آنکھوں میں درد اور آنسو واضح دیکھے جا سکتے تھے۔مروہ کے اہلخانہ کے لیے اس واقعے پر بات کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر صارفین نے ندا یاسر کے انداز اور سوالات پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنے چینل کی ریٹنگ کے لیے ایسے لوگوں کو بلا لیا جن کی بیٹی پر دردندوں سے ظلم کے پہاڑ گرا دئیے۔ندا یاسر کا مارننگ شو بند کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔صارفین کی جانب سے سوشل میڈیا پر شدید برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ایک صارف کا کہنا ہے کہ جعلی مہمانوں کو بلا کر پروگرام کرنے والی ندا یاسر نے مروہ کے والدین سے ایسے سوال کیے جس سے اس کے اہلخانہ رو پڑے۔ایک صارف نے ندا یاسر کے پروگرام کو بند کرنے کے ہیش ٹیگ کو استعمال کرنے کی درخواست کی۔جب کہ معروف ہوسٹ وقار ذکا نے صارفین سے کہا کہ وہ ندا یاسر کو پروگرام سے ہٹانے کے لیے پیمرا سے رابطہ کریں اور ان سے درخواست کریں کہ ندا یاسر کو اس پروگرام سے ہٹایا جائے،وقار ذکا نے صارفین سے کہا کہ میمز بنانے کے بجائے قانونی طریقہ اپنائیں۔ایک اور صارف نے کہا کہ صرف اپنے شو کی ریٹنگ کے لئے آپ متاثرہ خاندان سے احمقانہ سوال پوچھ رہی ہیں۔لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر شو کی ریٹنگ حاصل کی جا رہی ہے۔ صارف نے بھی ندایاسر کو بین کرنے کا مطالبہ کیا۔ایک اور صارف نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی کئی صارفین کی جانب سے ندا یاسر کو پروگرام سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button