گو مگو ۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان
کبھی آپ نے غور کیا کہ خدا ترس انسان کو بھکاریوں نے الجھن میں ڈال دیا ہے۔اسکی خواہش ہوتی ہے کہ اسکے سامنے پھیلا ہاتھ خالی نہ جائے لیکن ساتھ یہ پریشانی بھی کہ کہیں وہ پیشہ ور کو خیرات دے کے اس پیشہ کو فروغ دینے کا سبب تو نہیں بن رہا۔پھر یہ خیال بھی پریشان کرتا ہے کہ کوئی حق دار ہے یا پیشہ ور لیکن اس نے ہاتھ پھیلایا ہے تو اللہ کے دیے رزق سے اس کو نہ دینے کا جواز کیا ہے؟ اور روز قیامت اس پر کیا حد لگے گی۔اس طرح کے بہت سے معاملات ہیں جن کےدرست یا غلط ہونے سےمتعلق ہم فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔اگر غور کریں تو حکومت نے اسی طرح احتجاج کے معاملے پر بھی عوام کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔
تحریک لبیک کےسربراہ سعد رضوی کی گرفتاری، حکومتی معاہدہ، عدالتی فیصلہ اور موجودہ حکومت کا کردار(جب اپوزیشن میں تھی) نے عوام کو الجھا دیا ہے کہ وہ سیاسی و مذہبی جماعت کی حمایت کریں یا مخالفت۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ بات عجیب لگے اس لیے ساری روداد مختصرا آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ سڑکوں اور چوراہوں کو بند رکھنا غلط ہے لیکن جب حکومت نتائج کا تجزیہ کیئے بغیر ایک جماعت سے صرف اس لیئے معاہدہ کرتی ہےکہ احتجاج چند ماہ کیلیئے موخر ہو جائے۔پھر دھرنا اٹھانے کیلیئے وزیر داخلہ طرح طرح کی یقین دہانیاں کرواتے ہیں، گرفتار لوگوں کو رہا کرتے ہیں اور اک نیا معاہدہ کر لیتے ہیں۔دھرنا ختم ہوتا ہے تو معاہدہ کے باوجود سربراہ کو گرفتار رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی اٹھا لیتے ہیں جن کو یقین دلایا تھا کہ دھرنا ختم کریں تو سب گرفتار شدگان کو رہا کر دیا جائے گا۔دھرنا اگرچہ ختم ہوا اور وقتی سکون ہوا لیکن معاملہ لٹکا رہا۔پھر عدالت سے سعد رضوی کی رہائی کا فیصلہ آ گیا، آئی جی نے نوٹیفیکیشن جاری کیا یوں معاملہ ٹھپ ہوتا نظر آیالیکن حکومت نے ایک بار پھر ایڈونچر کو ترجیح دیتے ہوئے لیت لعل سے کام لیا۔ مچلکے اور کبھی دوسری توجیح کے باوجود جب محسوس ہوا کہ پھر بھی ہاتھ کچھ نہیں آنا تو ہائیکورٹ کے رہائی کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اس سارے عرصہ میں کئی ماہ سے درج درجن بھر ایف آئی آر نہ خارج کی نہ ریفرنس دائر کیا۔ ایک اور بات جو پریشان کن ہے وہ یہ کہ تمام لوگ جن کی توڑ پھوڑ
اور پولیس کی درگت بنانے کی ویڈیوز وائرل ہوئی ان کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی اس سارے عرصہ میں قانون نافذ کرنےوالوں سے لاقانونیت کا جواب مانگا گیا۔درجنوں ویڈیوز وائرل ہوئی جن میں دھرنے سے پکڑے گئے لوگوں کو بیہمانہ طریقے سے مار کر ویڈیو بنائی جاتی رہی، لوگوں پر اور بازاروں میں پہلی بار تیزاب چھڑکا گیا، سیدھی گولیاں ماری گئی درجنوں زخمی اور کئی لوگ ان گولیوں سے دنیا سے گئے مگر کسی نے اس کی انکوائری نہیں کی۔اب یہ سب ہونے کے بعد ایک بار پھر سڑکیں احتجاج کرنے والوں سے کم اور کنٹینرز سے زیادہ بند ہیں۔پھر سے گولیاں چل رہی ہیں لاہور میں کئی لوگ پولیس کی گولیوں سے ہسپتال میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان سارے واقعات سے حکومت نے کیا سیکھا اور سیدھی گولی مارنے کے علاوہ کیا حکمت عملی بنائی۔؟حکمران ہزاروں لوگوں کو گولیاں مارنے اور دھماکے کرنے والوں (تحریک طالبان پاکستان) سے ہاتھ ملانے کیلئے مرے جا رہے ہیں اور وہ لوگ جن کے ساتھ دھرنوں میں شامل ہو کر اسے عین جہاد گردانتے تھے ان پر سیدھی گولی چلا رہے ہیں۔جو لوگ اس ساری صورت حال سے اگاہ ہیں وہ الجھن میں ہیں کہ جب حکومت لوگوں کو اس نہج پر لے آئے تو ان دھرنوں پر حمایت کی جائے یا مخالفت۔