امریکا کو’’ ایبسولوٹلی ناٹ ‘‘کہنے اور فوجی اڈے نہ دینے پر عمران خان کے مشکور ہیں،گلبدین حکمت یار

کابل،واشنگٹن(نیوز ڈیسک )افغانستان میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات ختم ہو رہے ہیں، وزیر اعظم امریکا کو اڈے دینے سے انکار پر وزیراعظم عمران خان کے مشکور ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں حزب اسلامی کے سربرا کا کہنا تھا کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، افغانستان میں ایک پارٹی کی حکومت ہونی چاہئے، وزیر اعظم عمران خان نے جرات مندانہ طور پر کہا کہ افغان جنگ میں جانا غلطی تھی، بھارت کو چاہئے وہ بھی اس سے سیکھے، امریکا کو ایبسولوٹلی ناٹ کہنے اور فوجی اڈے نہ دینے پر عمران خان کے مشکور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنج شیر میں اب بھی بہت سے ممالک سازشیں کررہے ہیں، فرانس کا اس میں ہاتھ ہے، گلبدین حکمت یار نے کہا کہ بیرونی افواج کے نکلنے کے بعد افغان عوام بہت خوش ہیں۔دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے گذشتہ ماہ سرانجام دئیے گئے افغانستان سے فوجی انخلا کے کام کا ٹھوس انداز سے دفاع کیاہے جس اقدام کے ذریعے دو عشروں سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ عمل میں لایا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے بیان میں بلینکن نے کہا کہ اگر صدر جو بائیڈن نے افغانستان میں مسلح افواج کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو خاص تعداد میں امریکی فوج کو افغانستان میں تعینات کرنا پڑتا، تاکہ اپنا دفاع کرنے کے ساتھ طالبان کی چڑھائی کو روکنے کا کام کیا جائے، جس کا مطلب مزید جانوں کا نقصان ہوتا، اور پھر تعطل کو توڑنے کی خاطر ہم ایک غیر معینہ مدت تک افغانستان کی لڑائی میں الجھے رہتے۔انھوں نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک افغانستان میں رہنے سے افغان سیکورٹی افواج یا افغان حکومت زیادہ مضبوط ہوتی یا اس قابل بنتی کہ اپنا دفاع خود کر سکے۔بقول ان کے اگر 20 سال کے دوران، جس میں مالی اعانت، اسلحہ اور تربیت کا کام کیا گیا جس پر اربوں ڈالر کی لاگت آئی، اگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا؛ تو پھر مزید ایک سال، پانچ یا 10 برس تک رہنے سے کیا فرق پڑتا؟طالبان باغیوں نے اگست کے وسط میں ملک پر قبضہ کیا، جب صدر اشرف غنی سیاسی پناہ کے لیے متحدہ عرب امارات کے طرف بھاگ نکلے۔

امریکہ نے اگست کے اواخر تک کابل ایئرپورٹ سے ایک لاکھ 24ہزارافراد کا انخلا مکمل کیا، جن میں زیادہ تر افغان تھے، جن میں تقریبا 5500 امریکی تھے جب کہ تقریبا 100 امریکی پیچھے رہ گئے۔اس کے بعد چند امریکیوں کو زمینی راستے سے یا چند ایک پروازوں کے ذریعے ملک سے باہر لایا گیا ہے، جس ضمن میں طالبان نے رضامندی دکھائی۔ بلینکن نے کہا کہ امریکی حکام بروقت یہ نہیں بھانپ سکے کہ افغان حکومت اتنی تیزی کے ساتھ گر سکتی ہے، جب طالبان ملک میں پیش قدمی کر رہے تھے۔بلینکن کے بہ قول محتاط اندازوں کے مطابق بھی یہ پیش گوئی ممکن نہیں تھی کہ جب امریکی افواج ملک میں موجود ہو تو کابل میں حکومتی افواج مات کھا سکتی ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button