امریکی فوجیوں کا انخلاء مکمل،افغان طالبان کا جشن ، شہریوں کے نام مبارکباد کا پیغام

کابل (نیوز ڈیسک)امریکا 20 سال بعد افغانستان سے نکل گیا، امریکا نے ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے انخلا مکمل کرلیا اورحامد کرزئی ایئر پورٹ سے آخری 3 امریکی جہاز روانہ ہو گئے۔ امریکی فوج کے نکلتے ہی طالبان کا جشن، کابل میں ہوائی فائرنگ کی گئی۔ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے کہا ہے کہ کابل ایئر پورٹ سے آخری امریکی پرواز روانہ ہو گئی ہے،سیکیورٹی صورت حال خراب ہونے کے بعد ہم نے پلان تبدیل کیا۔طالبان پر واضح کیا تھا کہ اپنا اور اتحادیوں کا انخلا مکمل کریں گے،طالبان کو بتا دیا تھا کہ انخلا میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔

آخری امریکی پرواز کہاں روانہ ہوئی ابھی نہیں بتا سکتا، افغانستان میں 2 ہزار کے قریب داعش کے لوگ ہیں، انخلا کے گزشتہ 18 روز بہت مشکل تھے۔طالبان نے آخری وقت میں انخلا مکمل کرنے میں تعاون کیا۔جنرل میکنزی نے کہا کہ یہ امریکہ کی فوج کی تاریخ میں انخلا کا سب سے بڑا غیر جنگجو مشن تھا،امریکی فوج نے ایک دن میں 7500 سے زیادہ شہریوں کا انخلا یقینی بنایا،یہ ایک تاریخی کامیابی ہے۔جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہآخری امریکی پرواز کی روانگی کے وقت ایئرپورٹ پر انخلا کے منتظر افراد موجود نہیں تھے،تمام امریکی فوجی افغانستان سے واپس آ چکے ہیں،افسوس ہے کہ انخلا کے آخری دنوں میں 13 امریکی جانیں گئیں۔واضح رہے کہ گزشتہ 20 برس سے امریکی اور اتحادی افواج افغانستان میں موجود تھیں اور پورے مشن میں دوہزار امریکی فوجی جبکہ لاتعداد افغان طالبان اور لاکھوں عام بے گناہ شہری بھی مارے گئے۔ اس پورے مشن پر دو ٹریلیئن ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔اب افغان سرزمین پر کوئی امریکی یا غیرملکی فوجی موجود نہیں۔ دوسری جانب کوئی امریکی سفارت کار بھی افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوجی کارروائی خاتمے کے ساتھ ہی امریکا نے کابل میں سفارتی امور بھی بند کردیے ہیں۔امریکی جنرل کینتھ کے مطابق آخری پانچ طیارے امریکی افواج اور بعض شہریوں کو لے کر امریکا کی جانب روانہ ہوئےتاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض امریکی باشندے لاکھ کوشش کے باوجود بھی طیارے میں سوار نہ ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کا بہت انتظار کیا لیکن وہ نہ پہنچ سکے،

آخری پرواز کہاں روانہ ہوئی؟ یہ ابھی نہیں بتاسکتا۔جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ سے انخلا کے 18 روز بہت مشکل تھے، ہمارا پلان کچھ اور تھا تاہم سیکیورٹی صورتحال خراب ہونے کے سبب ہم نے اپنا پلان تبدیل کیا، ہم نے طالبان پر واضح کردیا تھا کہ دی گئی ڈیڈ لائن پر ہم اپنا اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل کرلیں گے اور اس دوران مداخلت برداشت نہیں کریں گے تاہم طالبان نے انخلا میں ہمارے ساتھ تعاون کیا۔امریکی جنرل نے مزید کہا کہ افغانستان میں 2 ہزار کے قریب داعش کے لوگ اب بھی موجود ہیں۔نائن الیون واقعے کے بعد امریکہ نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ دوسری جانب طالبان کا مؤقف تھا کہ وہ پہلے اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف سانحہ 11 ستمبر میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرے۔ امریکی اور اتحادیوں نے اس وقت افغانستان پرحملہ کیا تاہم افغان طالبان نے گوریلا طرز کی جنگ پر اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button