نو سال بعد بھی میرا ایک گولی کا زخم ٹھیک نہیں ہوا،ملالہ یوسفزئی

لندن(نیوز ڈیسک) 9 سال بعد بھی میں ایک گولی کے زخم سے صحتیاب ہورہی ہو، افغانستان کے لوگوں نے تو پچھلی 4 دہائیوں میں لاکھوں گولیاں کھائی ہیں، ملالہ یوسف زئی کا افغانستان کی بدلتی صورتحال پر تشویش کا اظہار۔ تفصیلات کے مطابق دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ پاکستانی اور انسانی حقوق کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے خود پر کیے گئے حملے کے 9 برس بعد بھی اب تک علاج جاری رہنے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا ڈاکٹر اس کا علاج آج بھی کررہے ہیں۔ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں طالبان کی واپسی کے تناظر میں اپنے

علاج سے متعلق مضمون فیس بک کے بلیٹن پوڈیم کے لیے تحریر کیا جس میں انہوں نے 2012 سے لے کر اب تک جاری رہنے والی سرجریز پر بات کی ہے۔اپنے مضمون کا آغاز کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا کہ ‘2 ہفتے قبل جب امریکی افواج، افغانستان سے انخلا کررہی تھیں اور طالبان کنٹرول حاصل کررہے تھے، اس وقت میں بوسٹن کے ایک ہسپتال میں بستر پر لیٹی اپنے چھٹے آپریشن سے گزر رہی تھی، کیونکہ طالبان نے میرے جسم کو جو نقصان پہنچایا تھا، ڈاکٹروں اس کا علاج کررہے تھے’۔اکتوبر 2012 میں ہونے والے حملے میں ایک گولی سے خود کو پہنچنے والے نقصان سے متعلق ملالہ یوسفزئی نے کہا کہہ ‘گولی نے میری بائیں آنکھ، کھوپڑی اور دماغ کو چیر دیا تھا، میرے چہرے کو زخمی کردیا تھا، میرے کان کا پردہ توڑ دیا تھا اور میرے جبڑے کے جوڑوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا’۔انہوں نے لکھا کہ ‘پاکستان کے شہر پشاور کے ایمرجنسی سرجنز نے میری بائیں کھوپڑی کی ہڈی کو ہٹا دیا تھا تاکہ میرے دماغ کو چوٹ لگنے کے نتیجے میں ہونے والی سوجن کے لیے جگہ پیدا ہو، ان کی بروقت کارروائی نے میری جان بچائی لیکن جلد ہی میرے اعضا نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور مجھے طیارے کے ذریعے اسلام آباد لے جایا گیا تھا’۔ملالہ مزید کہتی ہیں کہ ‘ایک ہفتے بعد ڈاکٹرز نے اس بات کا تعین کیا کہ مجھے زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہے اور علاج جاری رکھنے کے لیے مجھے اپنے وطن سے باہر منتقل کیا جانا چاہیے’۔انہوں نے بتایا کہ اس دوران مجھے کوما میں رکھا گیا تھا، مجھے اس وقت سے لے کر برمنگھم کے کوئین

الزبتھ ہسپتال میں ہوش میں آنے تک کچھ بھی یاد نہیں ہے۔برطانیہ کے ہسپتال میں ہوش میں آنے سے متعلق ملالہ کہتی ہیں کہ ‘جب میں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں تھی یا میں کیوں انگریزی بولنے والے اجنبیوں سے گھری ہوئی تھی۔ملالہ یوسفزئی نے اپنے علاج کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ‘جب پاکستانی سرجنز نے میری کھوپڑی کی ہڈی کا کچھ حصہ ہٹایا تھا تو اسے میرے پیٹ میں منتقل کردیا تھا تاکہ کچھ عرصے بعد وہ میری دوسری سرجری کرکے اسے دوبارہ سر میں ڈال سکیں۔انہوں نے کہا کہ ‘برطانوی ڈاکٹرز نے انفیکشن

کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اس جگہ پر ٹائٹینیم پلیٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا جہاں میری کھوپڑی کی ہڈی تھی، اس طریقے کو کرینیو پلاسٹی کہتے ہیں۔ملالہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز نے میری کھوپڑی کا ٹکڑا میرے پیٹ سے نکال لیا جو آج میرے بک شیلف پر موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ ‘ٹائٹینیم کرینیو پلاسٹی کے دوران میرے کان میں اس جگہ پر کوکلئیر امپلانٹ بھی کیا گیا جہاں گولی نے میرے کان کے پردے کو نقصان پہنچایا تھا۔حملے کے نتیجے میں ملالہ کے چہرے کو پہنچنے والے نقصان کا بھی کافی علاج ہوا، انہوں نے کہا کہ ‘برطانیہ پہنچنے کے 6 ہفتے بعد ڈاکٹرز نے میرے مفلوج

چہرے کے علاج کا فیصلہ کیا، انہوں نے دوبارہ میرے چہرے کو کاٹ دیا تھا اور شدید کٹی ہوئی رگوں کو اس امید پر دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی کہ ان کی نشوونما ہوگی اور یہ نقل و حرکت میں مدد کریں گی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال پر تشویش ہے۔یاد رہے کہ کچھ روز قبل برطانیہ میں مقیم ملالہ یوسف زئی نے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو افغانستان کی موجودہ صورتحال پر فون کیا تھا اور وہاں خواتین کے حقوق پر بات کی تھی۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے انہیں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر

فون کیا اور وہاں خواتین کے حقوق پر بات کی۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ملالہ یوسف زئی نےانہیں فون کر کےافغانستان میں خواتین کےحقوق پربات کی۔فواد چوہدری نے بتایا کہ ملالہ نےافغان خواتین کی تعلیم اور حقوق سے متعلق وزیراعظم کو خط بھی لکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر افغان حکومت عمران خان کی بات پر دھیان دیتی تو یہ حالات نہ ہوتے، افغان مسئلے کے حل کے لیے کام کررہے ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button