پاکستان، طالبان اور امکان ۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان

امریکی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان چند دنوں میں ایک ڈرامائی انداز میں طالبان کی جھولی میں آ گرا۔اگرچہ طالبان نے آنا فانا افغانستان فتح کر کے دنیا کو حیران کیا مگر فتح کے بعد کے اقدامات اور اعلانات نے ساری دنیا کو مزید ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اقتدار کی پر امن منتقلی، قتل و غارت گری سے اجتناب، عورتوں کو تعلیم اور کام کاج کی آزادی،کاروبار کا تحفظ,مذہبی آزادی اور اقوام عالم سے بہترین تعلقات کا ارادہ "بدلے ہوئے طالبان ” کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ افِغانستان کی فتح سے کچھ عرصہ قبل طالبان سے متعلق اسی تبدیلی کا تذکرہ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم پاکستان کر چکے ہیں۔

طالبان کی فتح پر پاکستان میں ایک بڑی تعداد خوشی کے شادیانے بجاتے نظر آتی ہے جس میں عام لوگوں کے علاوہ مذہبی رہنماء، حکومتی وزراء اور دیگر سیاستدان شامل ہیں۔ بنیادی طور پر اس معاملے پر پاکستان میں چار دھڑے ہیں۔ایک گروپ مذہبی بنیاد پر طالبان کی فتح کو سراہتا ہے۔دوسرا دھڑا طالبان سےاتنا لگاو نہیں رکھتا لیکن اس بات پر خوش ہے کہ امریکہ کو شکست ہوئی۔تیسرا دھڑا اس فتح کو عمران خان کے بیانات اور عسکری ایجنسیوں سے جوڑتا ہے۔چوتھا دھڑا اگرچہ اس بات پر خوش ہے کہ امریکہ کو شکست ہوئی لیکن افغانستان کی تاریخ،پاکستان کے امن کو خراب کرنے میں افغانستان کا حصہ اور مستقبل میں کسی ممکنہ ناپسندیدہ صورت حال کے پیش نظر متفکر نظر آتا ہے۔اور خوشی کے اظہار کی بجائے اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں موثر اور واضح حکمت عملی پر دھیان دینا چاہیے۔اس فتح کو اپنی ایجنسیوں کا کارنامہ بتا کر ہم بالواسطہ طور پر امریکہ اور دیگر ممالک کی پاکستان پر الزام تراشیوں کی تائید کرتے ہیں۔حالانکہ حکومت نے انہی الزامات کو رد کرنے کیلئے افغانستان سے بھاگنےوالے حکومتی عہدیداروں کو پاکستان میں خوش آمدید کہا اور دنیا کو بتایا کہ ہم نیوٹرل ہیں۔افغانستان میں برسر اقتدار آنے والے طالبان کے طرزِ حکومت اور پالیسی سازی میں پانچ فیصلہ ساز شخصیات ملا عبدالغنی برادر، ملا ہیبت اللہ، سراج الدین حقانی،ملا محمد یعقوب اور ملا عبدالسلام ضعیف ہیں.اہم اور قابل فکر بات یہ ہے کہ پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں خاص اہمیت کی حامل ان شخصیات کی پاکستان سے ایک تاریخ جڑی ہے۔

جس پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ملا عبدالغنی برادر وہ شخصیت ہےجنہوں نے قطر میں امریکہ کے ساتھ ایک کامیاب معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں امریکی فورسز کے انخلاء سے لے کرطالبان کا چند دنوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنےتک کے واقعات رونما ہوئے۔ ایک مدرسہ کے استاد سے (جنگجو تاریخ رکھنے والے ملک) افغانستان کے سربراہ بنے والے ملا عبدالغنی وہ شخص ہیں جنہوں نے ملا عمر کے ساتھ مل کر طالبان کی بنیاد رکھی . سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کابھی حصہ رہے۔ انہیں 2010 میں پاکستان میں گرفتار کر کے آٹھ سال قید رکھا گیا۔

2018 میں ملا عبدالغنی کو رہا کیا گیا اور وہ قطر مقیم ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی رہائی کے پیچھے امریکہ کا مبینہ دباؤ تھا۔ملا محمد یعقوب ملا عمر کے بیٹے ہیں۔ ایک تو اپنے نسب کی وجہ سے انہیں طالبان بہت اہمیت دیتے ہیں ۔دوسرا یہ شخص طالبان کے سیاسی وعسکری ونگ کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔ عسکری وسیاسی اہمیت کا حامل محمد یعقوب کراچی کے مدرسے سے تعلیم یافتہ ہےاور اسکی جوانی کا ایک حصہ پاکستان سے گہرا تعلق استوار کرتا ہے۔ سراج الدین حقانی ناصرف طالبان بلکہ حقانی نیٹ ورک کے بااثر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے ڈیکلیر کیا گیا خطرناک ترین جنگجو گروپ حقانی نیٹ ورک غیر ملکیوں کو اغوا کرنے اور خود کش حملوں کی وجہ سے انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ سراج الدین حقانی نے 2001کے بعد زیادہ وقت پاکستان میں گزارا. ان کا ایک بھائی اسلام آباد کے قریب مارا گیا۔یوں طالبان کے اس فیصلہ ساز کی بھی پاکستان سے اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں.ملا ہیبت اللہ طالبان کے وہ سپریم لیڈر ہیں ۔جن کو سیاسی لیڈر سے زیادہ روحانی لیڈر کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ طالبان کے سب سے زیادہ با اثر شخص جانے جاتے ہیں ۔ ملا عمر کی موت کو کافی عرصہ خفیہ رکھنے کے بعد ان کو سربراہ

بنایا گیا تھا تاکہ عسکریت پسندوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔یاد رہے کہ 2016 میں ملا منصور اختر کی ہلاکت کے بعد طالبان کے پاکستان سے تعلقات خراب ہوے.کوئٹہ مسجد میں خودکش حملہ مبینہ طور پر ملا ہیبت اللہ کو کو مارنے کے لیے کیا گیا جس میں وہ خود بچ گئے لیک ان کا سگا بھائی ہلاک ہو گیا۔ملا عبدالسلام۔ضعیف بھی ایک با اثر ترین شخصیت ہیں جو 2001 میں پاکستان میں بطور سفیر خدمات سر انجام دیتے رہے۔اس وقت ان کو تمام سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔اب پاکستان کے بارے ان کے کیا خیالات ہیں یہ وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوں گے لیکن ماضی میں انکے جذبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اپنی کتاب میں انہوں نے اس دکھ کا

اظہار کرتے ہوئے لکھا اور بتایا کہ امریکیوں نے انہیں بے لباس کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی حکومت گونگوں کی طرح تماشہ دیکھتی رہی حالانکہ وہ انکو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارے مہمان ہیں انکے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں۔ملا ضعیف نے یہ روداد لکھتے ہوئے مزید بتایا کہ "میں یہ بے عزتی قبر تک نہیں بھولوں گا”اگرچہ فتح کے بعد طالبان کا رویہ اور پالیسی خوش آئند ہے۔ پر امن افغانستان پر امن پاکستان کی ضمانت ہے۔موجودہ ڈیویلپمنٹ کے بعد ہمیں اچھی امید رکھنی چاہیے مگر ساتھ ہی ان شخصیات کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے طویل مدتی محتاط پالیسی سازی کرنے کی ضروت ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button