طالبان کے اہم رہنما ء انڈین ملٹری اکیڈمی کے تربیت یافتہ نکلے

نئی دہلی (این این آئی )بھارتی فوج کے ایک سابق جنرل اور ستانکزئی کے بیچ میٹ نے کہا ہے کہ طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنمائوں میں سے ایک شیر محمد ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت یافتہ ہیں۔ستانکزئی مذہب کی جانب کبھی مائل نہیں رہے۔وہ عام نوجوان کی طرح تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ایک مرتبہ ساتھ میں رشی کیش گئے تھے اور دریائے گنگا میں تیراکی بھی کی تھی۔ میرے پاس اس دن کی ایک تصویر بھی موجود ہے، جس میں شیرو اور میں آئی ایم اے کے سوئمنگ سوٹ میں ہیں۔ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا اور ہم اختتام ہفتہ پر اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں گھومنے جایا کرتے تھے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق بھارتی فوج کے ایک سابق جنرل اور ستانکزئی کے بیچ میٹ نے کہاکہ طالبان کے سات سب سے طاقتور رہنمائوں میں سے ایک شیر محمد ستانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے تربیت یافتہ ہیں۔انہوں نے کہاکہ ستانکزئی مذہب کی جانب کبھی مائل نہیں رہے۔ ستانکزئی کے ساتھ تربیت حاصل کرنے والے بھارت کے سابق میجر جنرل ڈی اے چترویدی نے بتایا کہ ستانکزئی جب آئی ایم اے میں داخل ہوئے تو ان کی عمر بیس برس تھی۔ وہ آئی ایم اے کی بھگت بٹالین کے کیرن کمپنی کے 45 جینٹلمین کیڈٹوں میں سے ایک تھے،ہم لوگ انہیں شیرو کے نام سے پکارتے تھے۔وہ خاصے ہٹے کٹے تھے تاہم ان کا قد زیادہ اونچا نہیں تھا ،انہوں نے کہاکہ وہ ہم لوگوں میں کافی مقبول تھے۔ وہ اکیڈمی کے دیگر کیڈٹس کے مقابلے میں تھوڑے بڑے لگتے تھے۔ ان کی شاندار مونچھیں تھیں۔ اس وقت ان کے نظریات میں کسی بھی صورت میں شدت پسندی نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک عام افغان کیڈٹ کی طرح تھے جو بھارت میں اپنا وقت انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔عباس ستانکزئی کے ایک دیگر بیچ میٹ ریٹائرڈ کرنل کیسر سنگھ شخاوت نے کہاکہ ستانکزئی افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز سے براہ راست آئی ایم اے میں آئے تھے،وہ عام نوجوان کی طرح تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ایک مرتبہ ساتھ میں رشی کیش گئے تھے اور دریائے گنگا میں تیراکی بھی کی تھی۔ میرے پاس اس دن کی ایک تصویر بھی موجود ہے، جس میں شیرو اور میں آئی ایم اے کے سوئمنگ سوٹ میں ہیں۔ان کا رویہ نہایت دوستانہ تھا اور ہم اختتام ہفتہ پر اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں گھومنے جایا کرتے تھے۔ستانکزئی 1996 میں افغان آرمی سے الگ ہو کر طالبان میں شامل ہو گئے۔ وہ امریکا سے طالبان کو سفارتی طور پر تسلیم کرانے میں کلنٹن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں بھی شامل رہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button