کابل سے فرار ہوتے وقت اشرف غنی کتنے ڈالرز ساتھ لے گئے،تمام تفصیلات سامنے آگئیں

کابل (نیوز ڈیسک)کابل سے فرار کے وقت اشرف غنی کتنے ڈالرز لے کر گئے؟ تفصیل سامنے آگئی۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔روس نے دعویٰ کیا تھاکہ اشرف غنی افغانستان سے فرار ہوتے ہوئے اپنے ساتھ پیسوں سے بھری 4 گاڑیاں اور ایک ہیلی کاپٹر بھی لے گئے تھے۔رپورٹس کے مطابق سابق افغان صد ر کو کچھ پیسے چھوڑ کر بھی جانا پڑا کیونکہ ان کے پاس مزید پیسے رکھنے کی گنجائش موجود نہیں تھی۔تاہم اب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے صحافی کاوون خاموش کے مطابق تاجکستان میں
افغان سفیر ظاہر اغبار

نے اشرف غنی کے پاس موجود رقم کا بتادیا ہے۔انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں افغان سفیر نے کہا کہ کابل سے فرار ہوتے وقت اشرف غنی بیگوں میں 169 ملین (16 کروڑ) ڈالرز بھر کر لے گئے ہیں‘۔خیال رہے کہ اشرف غنی 15 اگست کو فیملی اور قریبی ساتھیوں کے ہمراہ ملک سے فرار ہوگئے تھے اور اب اس حوالے سے متحدہ عرب امارات نے تصدیق کی ہے کہ اشرف غنی امارات میں موجود ہیں۔وزارت خارجہ یواے ای نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی یواے ای میں موجود ہیں، وزارت خارجہ یواے ای نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اشرف غنی کو وطن آنے کی اجازت دی، اشرف غنی اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ اپنے ولاز میں رہائش پذیر ہیں۔افغان میڈیا کا کہنا ہےکہ سابق افغان صدر اشرف غنی لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں۔مزید برآں افغان میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ تاجکستان میں افغان سفارتخانے نے انٹرپول کے ذریعے سابق افغان صدر اشرف غنی، حمد اللّٰہ محب اور فضل محمود فضلی کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تاجکستان میں افغان سفارت خانے نے انٹر پول سے مطالبہ کیا کہ وہ اشرف غنی، حمد اللّٰہ محب اور فضل محمود فضلی کو افغانستان کا قومی خزانہ چرانے کے الزام میں گرفتار کرے۔دوسری جانب گزشتہ روز ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سربراہ افغان طالبان کے حکم پر سب کو معاف کردیا، اب کسی سے دشمنی نہیں، تمام سفارتخانوں اور غیرملکیوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے،افغان سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں کرنے دیں گے، تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل افغان حکومت تشکیل دیں گے، خواتین کو کام کی اجازت ہوگی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button