آخر میرے ساتھیوں نےکس لیے جانیں دیں، سابق امریکی فوجی افسراپنی حکومت پر برس پڑے

واشنگٹن(نیوز دیسک) 20 سال میں کھربوں ڈالرز اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان ایک با رپھر کابل پر قابض ،اگر نتیجہ یہی نکلنا تھا تو پھر میرے سینکڑوں ساتھیوں نے کس لیے قربانی دی،سابق امریکی فوجی افسر اپنی ہی حکومت پر برس پڑے۔ تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امریکی تاریخ کی طویل ترین 20 سالہ جنگ کے غیر متوقع اختتام پر جہاں اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں وہیں افغان جنگ میں شریک سابق امریکی فوجی بھی مایوسی کا اظہار کررہے ہیں۔20 سال میں کھربوں ڈالرز اور ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طالبان ایک با رپھر کابل پر قابض ہوچکے ہیں۔

افغان جنگ میں شریک ایک سابق امریکی فوجی میٹ زیلر نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے حالات پر مایوسی کا اظہار کیا ۔میٹ زیلرکا کہنا تھا کہ 20 سال بعد ‘اب میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا میرے پچھلے 20 سال مکمل طور پر بیکار اور بے مقصد تھے، وہ تمام دوست جنہیں میں نے افغانستان میں کھویا، آخر ان کی موت کس لیے ہوئی؟ اگر نتیجہ یہی نکلنا تھا تو پھر انہوں نے کس لیے قربانی دی۔سابق امریکی فوجی کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ اس دوران میں نے کوئی قابل قدر کام کیا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہےکہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ درست تھا اور اس فیصلے پر انہیں شرمندگی نہیں ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ جو لڑائی افغان فوج نہیں لڑنا چاہتی وہ امریکی فوج کیوں لڑے؟ افغان رہنما حوصلے چھوڑ گئے اور ملک سے بھاگ نکلے، ہم نے افغان فوج کو سب کچھ دیا مگر انہیں لڑنے کا عزم اور حوصلہ نہ دے سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کو تبدیل کرنا ہمارا مشن نہیں تھا، ہمارا مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور اسامہ کو پکڑنا تھا، ہم اس مشن میں کامیاب رہے ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان کے عسکری ونگ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ سربراہ افغان طالبان کے حکم پر سب کو معاف کردیا گیا ہے ہم نے ہر اس شخص کو معاف کردیا جو ہمارے خلاف کھڑا تھا، یقین دہانی کراتے ہیں کسی سے کوئی تصادم نہیں ہوگا، یقین دہانی کراتے ہیں افغانستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ذبیح اللہ نے کہا کہ افغانستان سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے مشاورت جاری ہے، تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل افغان حکومت تشکیل دیں گے۔اقتدار کی منتقلی سے قبل کابل میں داخل نہیں ہونا چاہتے تھے، شہر کو لوٹ مار سے بچانے کیلئے کابل میں داخل ہونا پڑا۔ اب افغان عوام کی خدمت کا وقت ہے،پرامن انتقال اقتدار جلد چاہتے ہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button