نورمقدم کی والدہ کے بیٹی کے چہرے پر جھک کر دوہرانے والے الفاظ نے ہر آنکھ نم کردی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسلام آباد میں بہیمانہ قتل ہونے والی سابق سفارتکار کی بیٹی نور مقدم کو دو روز قبل سپرد خاک کیا گیا۔ اس موقع پر نور مقدم کی والدہ کے الفاظ نے سب کو غمزدہ کر دیا۔ غم سے نڈھال والدہ کو دیکھ کر سب خاموش تھے کیونکہ کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نور کے گھر پر منظر ویسا ہی تھا جیسے کسی کے دنیا سے چلے جانے پر ہوتا ہے۔باہر پورچ میں شامیانے لگے ہیں اور اُدھر مرد موجود ہیں اور اندر ڈرائنگ روم میں خواتین موجود ہیں۔ لیکن نور مقدم کی موت کی کہانی نہایت تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ طبعی موت نہیں تھی۔

تابوت میں کفن میں لپٹی نور کا سر تن سے جدا تھا اور یہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ وحشیانہ قتل کاایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔رپورٹ کے مطابق رخصت کے موقع پر گھر کے مرد خواتین کو دلاسہ دے رہے تھے اور پھر نور کی غم سے نڈھال والدہ نے اپنی بیٹی کے چہرے پر جُھک کر کہا ” میں نے اللہ کے حوالے کیا، میں نے اللہ کے حوالے کیا”۔یہ وہ الفاظ تھے جو وہ بار بار دہرا رہی تھیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نور مقدم کے ساتھ جو ہوا وہ ان کی والدہ کو کافی بعد میں بتایا گیا۔ وہ پوچھتی تھیں کہ گولی لگی ہے؟ تو سب ان کو کہتے تھے کہ ”ہاں”۔ مسجد جاتے وقت تابوت کو گاڑی میں رکھ دیا گیا اور وہاں موجود ہر فرد خاموش تھا، افسردہ اور شاک میں دکھائی دے رہا تھا اور ایسے جیسے کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔اسلام آباد کے نیول انکریج کے علاقہ کی جامع مسجد میں نور مقدم کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر وہاں سے انہیں تدفین کے لیے قبرستان منتقل کیا گیا۔ سب نور کے والد کو دلاسہ دینے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی تکلیف اور دکھ پر پرسہ دے ر ہے تھے۔ ان مشکل لمحات میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے وہ ایک ایک ملنے والے سے نہایت صبر سے ملتے لیکن پھر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔بی بی سی نمائندہ کے مطابق نور کے والد ایک پتھر کے سہارے بیٹی کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ تعارف کروانے پر اور فون پر رابطے کا حوالہ دینے پر انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے بی بی سی کی خبر دیکھی تھی، اور میں اس روز میں صبح ساڑھے چھ

بجے تک ایف آئی آر کٹوانے کے لیے تھانے میں موجود تھا۔ قبرستان میں ہی نور کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ نور ایک بہت اچھی دوست تھی، وہ تو گلی میں گزرتے کتوں اور بلیوں کو بھی کھانا دیتی تھی۔قبرستان کے داخلی گیٹ کے پاس موجود ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ آج میں پہلی بار کسی جنازے کے ہمراہ آئی ہوں۔نور کی قریبی دوست عائلہ نے کہا کہ وہ تو واقعی نور تھی۔ نہ کبھی اس نے کسی کا بُرا چاہا نہ کسی سے بُرا بولا۔ وہ ایک پینٹر اور کمیونٹی ورکر تھی۔ ہر دوست کی برتھ ڈے پر کارڈ خود بناتی تھی۔ نور کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم اس واقعہ کا

تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔جس گھر میں نوکروں کی ایک فوج موجود ہو وہاں نور کے ساتھ یہ سب ہونا ایک ناقابل یقین بات لگتی ہے۔ نور مقدم کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات کا حد ملال ہے کہ نہ جانے ہماری کم گو دوست نور نے کتنی بار مدد کے لیے پکارا ہو گا لیکن کیونکہ وہ اتنا دھیما بولتی تھی کہ شاید اس کی آواز گھر کے اس کمرے سے بھی باہر نہ نکل پائی ہو۔ یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد میں تھانہ کوہسار کے علاقے سیکٹر ایف سیون فور میں نوجوان خاتون کو لرزہ خیز انداز میں قتل کردیا گیا تھا۔خاتون کو تیز دھار آلے سے بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔

لڑکی کا گلا کاٹنے کے بعد سر کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا گیا تھا۔ واقعے کی اطلاع موصول ہوتے ہی سینئر افسران اور متعلقہ ایس ایچ او موقع واردات پر پہنچے اور تحقیقات کیں۔ قتل میں ملوث ظاہر جعفر نامی شخص کو موقع واردات سے گرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا گیا اور وقوعہ کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ظاہر جعفر معروف بزنس مین ذاکر جعفر کا بیٹا ہے اور مقتولہ نور مقدم کا دوست تھا۔ پولیس نے ملزم کا دو روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا ہے جو پیر کے روز ختم ہو گا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button