قصور میں 11افراد نے خاتون کی اجتماعی عصمت دری کرڈالی

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک )قصور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کا بیان سامنے آ گیا۔تفصیلات کے مطابق قصور میں ایک انتہائی شرمناک واقعہ پیش آیا جہاں خاتون کو پولیس ملازم سمیت 11 افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ملزمان زیادتی کی وڈیو بھی بناتے رہے اور 50ہزار روپے بھتہ بھی مانگتے رہے۔ واقعہ قصور کے علاقہ کماہاں لاہور میں پیش آیا جہاں ایک خاتون اپنے رشتے داروں کے پاس گاؤں سیر کے لیے آئی تھی جسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کا بیان بھی سامنے آیا ہے۔متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ باغ میں سیر کرنے کے لیے گئی جہاں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ باغ کے مالی اور پولیس اہلکار سمیت 11 افراد نے زیادتی کی۔زیادتی کرنے والے مالی کے دوست تھے،خاتون کے مطابق ملزمان کی جانب سے اس پر تشدد بھی کیا گیا۔پولیس نے اب تک 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔یہ بھی بتایا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون جب تھانہ شیخم پہنچی تو سب انسپکٹر رضوان نے رپورٹ درج کرنے کی بجائے اسے تھانے سے بھگا دیا اور دوبارہ تھانے آنے پر الٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ ڈی پی او قصور عمران کشور نے معاملہ پر سب انسپکٹر رضوان کے خلاف مقدمہ درج کر کے محکمانہ انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق زیادتی کے 11میں سے 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔قبل ازیں قصور میں ایک 12 سالہ یتیم بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کا دلخراش واقعہ پیش آیا تھا۔ قصور کے علاقہ منڈی عثمانوالہ میں چار افراد نے مزدوری کے بہانے بلا کر 12 سالہ یتیم بچی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس کے مطابق متاثرہ بچی کھیتوں میں مزدوری کرکے اپنی والدہ و دیگر کا پیٹ پالتی ہے، زیادتی کا شکار بچی کا والد فوت ہوچکا ہے جبکہ والدہ بھی ذہنی معذور ہے۔ڈی پی اوعمران کشور نے بتایا کہ ملزمان علی رضا، ذوالفقار اور عثمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتارکیا گیا۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں لڑکیوں بالخصوص کم سن بچیوں سے زیادتی کے کئی واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ زیادتی کے واقعات کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ خواتین اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button