اسامہ ستی ق ت ل کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا گرفتار پولیس اہلکارکو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسلام آباد میں قتل ہونے والے اسامہ ستی کیس میں انتہائی اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے گرفتار پولیس اہلکار مدثر مختار کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ 4 پولیس اہلکار تاحال اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔انسداد دہشتگردی عدالت نے مقدمہ سیشن کورٹ بھیج دیا تھا۔ملزمان کے خلاف ٹرائل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جاری ہے۔۔واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں اسلام آباد میں اسامہ ستی کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسامہ ستی کی موت کے 4 گھنٹے تک مقتول کے اہلخانہ کو لاعلم رکھا جبکہ ملوث اہلکاروں

نے اس رات اپنے افسران کو مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسامہ کے قتل کو انکاؤنٹر گرادنتے رہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ وقوعہ سے 18 گولیوں کے خول 72 گھنٹے کے بعد این ایف ایس اے بھیجے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے تفتیشی افسران بھی ملوث اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔جوڈیشل رپورٹ میں کہا گیا کہ اہلکاروں نے چاروں طرف سے 22 گولیاں اسامہ ستی پر فائرکیں جب وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اہلکار اسامہ کو جان سے مارنے کی نیت رکھتے تھے۔انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ 15 کنٹرول روم کی جانب سے ریسکیو 1122 کو وقوعہ کی لوکیشن سے متعلق غلط معلومات فراہم کی گئیں پھر کچھ دیر بعد ریسکیو گاڑی کو پھر پیغام دیا گیا کہ واپس آجائیں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔علاوہ ازیں انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ اسامہ ستی کی لاش روڈ پر پڑی تھی اور پولیس نے اپنی گاڑیوں کے ذریعے ایک گھیرا بنا لیا تاکہ عوام کی نظروں سے معاملے کو خفیہ رکھا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق اسامہ ستی کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے لاش کو روڈ پر پڑی رہنے دی جس سے ظاہر ہوتا ہے اہلکار اسامہ کے مرنے کا کا انتظار کررہے تھے۔جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے اسامہ ستی کی گاڑی پر فائرنگ کے لیے اپنے اسلحہ کا آزادانہ استعمال کیا۔ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رانا محمد وقاص کی جانب سے کی گئی اسامہ ستی قتل کیس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ وزارت داخلہ کو جمع کروادی گئی ، جس میں پانچوں اے ٹی ایس اہلکار کو قتل کا ذمہ دارقرار دیا گیا جن

کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کی بھی سفارش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق متعلقہ ایس پی اورڈی ایس پی نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ، دونوں افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے جب کہ ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت مقدمہ چلایا جائے، رپورٹ میں کہا گیا کہ اے ٹی ایس کمانڈوزکی تعیناتی کارکردگی کی بنیاد پرہونی چاہیے ، اے ٹی ایس اہلکاروں کو فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، اہلکاروں کی خدمات ایس پی کی منظوری کے بغیرنہیں لی جانی چاہئیں ، جب کہ آئی جی وائرلیس سسٹم کی بہتری کے لیے اقدامات کریں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button