اب جو ٹیکس نہیں دے گا، اس کو جیل میں ڈال دیں گے، وزیراعظم

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اب جو ٹیکس نہیں دے گا، اس کو جیل میں ڈال دیں گے، رواں سال 5800 ارب ٹیکس اکٹھا کرنا ہمارا ہدف ہے،سب سے مشکل کام باہر جاکر قرض مانگنا ہے،سبزپاسپورٹ کی عزت کی خاطرلوگوں کو ٹیکس دینا چاہیے۔انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اورسیز پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس طرح انہوں نے ترسیلات زر پاکستان بھیجے، 20 ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ ذخائر ہوگئے، پاکستان اورسیز پاکستانیوں کا ملک ہے، آپ نے باہر جاکردیکھ لیا پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں ہے۔سب سے مشکل کام باہر جاکر قرض مانگنا ہے،

جس ملک کا لیڈر باہر جاکر قرض مانگتا ہے یہ بڑی شرم کی بات ہے، اس سے قوم نیچے جاتی ہے، دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانی خیرات کرنے والے لوگ ہیں، لیکن جب ٹیکس دینا ہوتا تو ٹیکس نہیں دیتے، 22 کروڑ صرف 22 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، یہ لوگ کیسے بوجھ اٹھائیں گے، پیسے ٹیکس سے آتے ہیں، میں اپنی طرف سے یقین دلاتاہوں کہ پورا زور لگا رہے ہیں، خرچے کم کریں، ہم نے تین سالوں میں 108 کروڑ خرچ کم کیا ہے، ہم نے کاروباری طبقات کو ٹیکس میں چھوٹ دی، لیکن اب ٹیکس دیانتداری سے دینا چاہیے، ہم ایف بی آر کو ٹھیک کریں گے، لیکن عوام کو بھی چاہیے کہ سبزپاسپورٹ کی عزت چاہتے ہیں تو ٹیکس دینا ہوگا،ہمارا 5800 ارب ٹیکس کا ہدف ہے، امریکا میں ٹیکس فراڈ پر جیل ہے ،وزیرخزانہ کے نیچے کمیٹی بنا رہے ہیں، جو ٹیکس نہیں دے گا، اس کو جیل میں ڈال دیں گے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں پر ہندوستانی حکومت جو ظلم کررہی ہے،بھارتی حکومت 5 اگست سے پہلے بھی پیلٹ گن اور تشدد کر رہی تھی لیکن 5 اگست کے بعد ظلم وجبر کی انتہا کردی گئی ہے۔ میں کشمیریوں کے جذبے کر سلام پیش کرتا ہوں ، کشمیریوں پر 8 لاکھ ہندوستانی فوج کھڑی کردی گئی، کشمیریوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ بجٹ اجلاس میں بھرپور شرکت پر پی ٹی آئی اور اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں اپوزیشن کو دعوت دیناچاہتا ہوں کہ 1970کے بعد سارے الیکشن متنازع ہوئے، ابھی سینیٹ الیکشن متنازعہ ہوا، ہم نے اصلاحات کی کوشش کی کہ پاکستان میں بھی الیکشن تسلیم کیے جائیں،

ہم اصلاحات لے کر آئے ہیں، میں اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ یہ حکومت یا اپوزیشن کی بات نہیں بلکہ جمہویت کا مستقبل ہے، میں 21 سال کرکٹ کی زندگی کے تجربے سے بتانا چاہتا ہوں کہ جوہارتا تھا وہ ہار نہیں مانتا تھا، کیونکہ ہر ملک اپنے اپنے ایمپائر کھڑے کرتا تھا، میں نے بطور پاکستانی کپتان کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار نیوٹرل ایمپائر کھڑے کیے، آج دنیا کی کرکٹ میں شفافیت سے یہ ایشو ہی ختم ہوگیا ہے۔انتخابی اصلاحات کرنی چاہیے اور کسی کو فکر نہیں ہونا چاہیے ہمیں کوئی دھاندلی سے ہرا دے گا، اپوزیشن نے پہلے روز مجھے پارلیمنٹ میں تقریر نہیں کرنی دی، کہ الیکشن میں

دھاندلی ہوئی، لیکن ہم نے 2013 کے الیکشن میں کہا دھاندلی ہوئی ہم نے ثبوت پیش کیے، 2015ء میں جوڈیشل کمیشن بیٹھی ان رپورٹ تھی، الیکٹرانک مشین ایسا طریقہ ہے کہ ادھر الیکشن پولنگ ہوئی اور ادھر بٹن دبایا اور رزلٹ آجاتا ہے، اپوزیشن کے پاس انتخابی اصلاحات کیلئے کوئی تجویز ہے تو ہم تیار ہیں، لیکن اگر الیکشن میں ریفارمز نہیں کریں گے تو ہر الیکشن ایسے ہی متنازعہ ہوگا، جیسے ضمنی انتخابات میں بھی ہوا۔وزیراعظم نے بجٹ سے متعلق کہا کہ مجھے خوشی ہے ، شوکت ترین اور ساری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے میری ویژن کے مطابق بجٹ بنایا ہے، ہم نے 25 سال پہلے

پارٹی بنائی تو ہمارا مقصد نظریہ پاکستان والا تھا، کہ اسلامی فلاحی ریاست ہو، یہ نظریہ بانی پاکستان نے ریاست مدینہ سے لیا تھا، جو دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی، میں یوتھ کیلئے کہنا چاہتا ہوں کہ کیوں ضروری ہے کہ پاکستان دوبارہ اپنے نظریے پر واپس جائے، اگر ہم اپنے ویژن سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پاکستان بننے کا مقصد ختم ہوجاتا ہے، پاکستان جب بنا تھا تو بہت زیادہ مسلمان ہندوستان میں رہ گئے تھے ، نظریے کی وجہ سیت ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی متحد تھے کہ پاکستان بننا چاہیے، علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مسلمان جب بھی اٹھتا ہے تو وہ واپس ریاست مدینہ کے اصولوں کی

طرف جاتا ہے، پیارے رسول ﷺ نے ریاست مدینہ کیلئے جو اصول سیٹ کیے اس سے طاقتور سلطنتیں بھی گھٹنے ٹیک گئیں، لیکن جب ہماری تہذیب نیچے گئی تو یورپ نے ٹیک اوور کرلیا،پاکستان کے انصاف، انسانیت اور خودداری تین اصول تھے، اس کو مدنظر رکھ کرہی بجٹ بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب حکومت ملی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑا مسئلہ تھا، کرنٹ اکاؤنٹ کا مطلب ڈالر ملک میں کتنے آرہے ہیں اور کتنے باہر جارہے ہیں، خسارے کی وجہ سے ڈالر اوپر گیا،ہم نئے تھے، ٹیم نئی تھی، تجربہ نہیں تھا، لیکن کرائسسز میں معیشت کو اٹھانے کیلئے بڑے اقدامات اٹھائے۔انہوں نے گھر کی مثال دی کہ جب گھر مقروض ہوجاتا ہے تو وہ آمدنی بڑھاتا ہے اور اخراجات کم کرتا ہے، اسی طرح جب کوئی ملک اس طرح کی مشکل میں ہوتا ہے اس کیلئے بھی قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، ہماری اقتصادی ٹیم نے جس طرح کے فیصلے کیئے، دنیا میں باہر پیسے اکٹھے کرنے کی کوشش کی، یواے ای ، سعودی عرب، چین نے ہماری مدد کی، میں شکر گزار ہوں، انہوں نے ہمیں دیوالیہ سے بچا لیا، جیسے جیسے کرنسی گرتی ہے تو غربت اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے، ہم نے کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، آئی ایم ایف کی شرائط بڑی سخت تھیں، لیکن بالآخر ہمیں جانا پڑا، اس چیلنج سے ابھی نکلے نہیں تھے کہ کورونا آگیا، کورونا کے ساری دنیا کی معیشت پر اثرات پڑے، میں این سی اوسی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ، پاک فوج نے مدد کی، اللہ نے ہمیں اس مصیبت سے بچا لیا، ہم اس لیے بچ گئے کہ ہم نے پورا لاک ڈاؤن نہیں لگایا، دنیا میں لاک ڈاؤن سے غریب ، نچلا طبقہ پس گیا، اپوزیشن کی بڑا پریشر تھا کہ لاک ڈاؤن نہیں لگا رہے،

لیکن ہم نے جو فیصلہ کیا ، اسمارٹ لاک ڈاؤن سے معیشت اور کاروباری طبقات کو بچایا، ہم نے اپنی معیشت بھی بچا لی اور لوگوں کو بھی بچا لیا۔ہم نے تعمیراتی شعبے کو پوری طرح کھولنے کی کوشش کی، ایکسپورٹ انڈسٹری اور زرعی سیکٹر چلایا، احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 50لاکھ لوگوں کو پیسے دلوائے۔ ایکسپورٹ ایک سال میں 17فیصد بڑھی، چاول، گندم، مکئی اور گنے کی ریکارڈ فصل سے معیشت بہتر ہوئی۔اسی طرح اللہ نے ہمیں ٹڈی دل سے بھی بچالیا۔اللہ کا شکر ہے ہماری گروتھ ریٹ 4فیصد ہوگئی ہے۔مستقبل میں ہماری گروتھ ایکسپورٹ کی وجہ سے ہوگی، ہم نے برآمدات پر پوری توجہ

دیں گے، اسمال اور میڈیم انڈسٹری پر پوری توجہ دے رہے ہیں، ان کو قرضے دینے کیلئے پالیسی بنا رہے ہیں، پنجاب میں زرعی سیکٹر کی بہتری کیلئے کسان کارڈ لے کر آرہے ہیں،کسانوں کو سود کے بغیر 3لاکھ قرض دیں گے، زرعی سیکٹر میں ریسرچ کریں گے، آج ہمیں گندم ، دالیں ، آئل اور فوڈ امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے، بیرون ملک سے بھینسوں کی جینزبدلنے کیلئے امپورٹ کررہے ہیں، پاکستا ن نے آگے بڑھنا ہے، تو ہمیں نظریے پر واپس جانا ہوگا، بجٹ میں سوشل پروٹیکشن کیلئے بجٹ میں سب سے زیادہ پیسا رکھا گیا، ریاست مدینہ میں غریبوں کمزوروں کی ذمہ داری ریاست نے لی تھی، جب دکھی

انسانیت اور غریب کی مدد کریں گے تو اوپر سے برکت آئے گی، چین اور ہندوستان دونوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے، 35سال قبل دونوں ممالک ایک جگہ پر کھڑے تھے، لیکن چین اوپر چلا گیا، چین نے غریبوں کی حالت بدلنے کا فیصلہ کیا،جبکہ ہندوستان میں امیر اور غریب میں فرق بڑھایا گیا۔چین نے 37سال میں غربت کو ختم کردیا ہے، چین ایک سپرطاقت بن گیا ہے۔آج ہمارا خاندانی نظام نہ ہوتو لوگ بھوکے مر جائیں، اگر کوئی بے روزگار ہوتا ہے تو ساری فیملی ان کو اپنے ساتھ لے لیتی ہے۔ کامیاب پاکستان پروگرام کیلئے 500ارب مختص کردیا ہے، تمام خاندانوں کا ہمارے پاس ڈیٹا آگیا ہے ،

کمزور خاندانوں کو کامیاب پاکستان کے نیچے لائیں گے۔کامیاب پاکستان پروگرام میں بلا سود قرض دیں گے، کسان کو 3لاکھ قرض دیں گے۔ہیلتھ انشورنس کارڈ دیں گے، پنجاب ، پختونخواہ اور جی بی میں ہیلتھ کارڈ دیں گے۔ بلوچستان میں بھی جام کمال سے بات ہوچکی ہے، سارے خاندانوں کویونیورسل ہیلتھ انشورنس دینی ہے،یونیورسل ہیلتھ انشورنس امریکا میں بھی نہیں ہے،ہرخاندان کے ایک فرد کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دیں گے، 90ہزار اسکالرشپس غریبوں کو دیں گے، اوقاف کی زمینوں کو پرائیویٹ سیکٹر کو سستے داموں میں دیں گے، تاکہ وہ ہسپتال بنائیں، ڈیوٹی فری میڈیکل آلات باہر سے امپورٹ کروائیں گے،

ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں کواحساس پروگرام کے تحت براہ راست سبسڈی دیں گے، گھی، آٹا، چینی، دالیں ان پر سبسڈی دیں گے، یہ خاندان کسی بھی یوٹیلٹی اسٹورز سے جاکر اشیاء خرید سکیں گے۔کم لاگت گھر پروگرام بھی اٹھنے والا ہے۔ پناہ گاہوں کا جال پورے ملک میں بچھائیں گے، تاکہ مزدور کھانا بھی کھائیں رہائش بھی اختیار کریں اور پیسا اپنے گھر والوں کو بھیجیں۔سیکرٹری جنرل یواین نے ایک فیکٹ پینل بنایا کہ امیر ملک امیر اور غریب غریب کیوں ہوورہے ہیں، فیکٹ پینل نے بتایا ایک ہزار ارب ڈالر ہر سال غریب ممالک سے امیر ممالک میں چلے جاتے ہیں،جب ایک ملک کی تباہی آتی ہے تو نچلا طبقہ تباہ نہیں کرتا ملک تب تباہ ہوتا ہے جب کسی ملک کا وزیراعظم ملک سے باہر منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسا بھیجتا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button