وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکی سیکرٹری کا فون سننے سے معذرت

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وزیراعظم عمران خان نے امریکا کی دوسرے درجے کی قیادت سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے اہم فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے دفای تجزیہ کار اعجاز اعوان کی جانب سے بتایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ اب جو بھی بات ہوگی وہ براہ راست امریکی صدر سے ہوگی۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکی سیکرٹری کا فون سننے سے معذرت کی گئی اور کہا گیا کہ پروٹوکول کے مطابق امریکی صدر خود ان سے رابطہ کریں۔

اعجاز اعوان کے مطابق عمومی طور پر پروٹوکول کے تحت کسی بھی اہم معاملے پر گفتگو کیلئے امریکی صدر خود وزیراعظم سے رابطہ کرتے ہیں، اسی لیے پیغام بھیجا گیا ہے کہ افغانستان سے انخلاء اور اس سے متعلقہ معاملات کیلئے امریکی صدر خود وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کر کے بات چیت کریں۔یہاں واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد پاکستان میں ایک ائیربیس حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکی حکام مسلسل پاکستانی حکام سے رابطے کر رہے ہیں۔ جبکہ اس حوالے سے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اڈوں کا سوال ہی نہیں،فوجی اڈوں کی تلاش امریکا کی خواہش اور تلاش ہو سکتی ہے لیکن ہم نے اپنا مفاد دیکھنا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو بریفنگ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں، چاہتے ہیں کہ فوجی انخلا کے ساتھ امن عمل بھی آگے بڑھے۔ہم افغانستان میں امن و استحکام کے خواہش مند ہیں۔وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ دنیا اب پاکستان کو مسئلے کا حصہ نہیں حل کا حصہ سمجھتی ہے۔ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ کچھ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ خطے میں امن ہو۔دوسری جانب خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکا، افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے آخری مراحل میں ہے اور حالیہ دنوں میں امریکا اور پاکستان کے مابین سفارتی سطح پر ہونے والے رابطوں نے ان قیاس آرائی کو جنم دیا ہے کہ پینٹاگون طالبان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نئے اڈوں کی تلاش میں ہے۔ پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں کوئی امریکی فوج یا ہوائی اڈہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے، اس حوالے سے متعلق کوئی قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں اور ان سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button