بھارتی ریاست اترپردیش میں125سالوں سے رہائش پذیرمسلمانوں کو بیدخل کرنے کا منصوبہ

نئی دہلی ( نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست اتر پردیش میں انتہاپسندہندو وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے مندر کے احاطے کے قریب 125 برسوں سے رہائش پذیر مسلمان خاندانوں کو ”مندر کی سکیورٹی“ کے نام پر بیدخل کردیا ہے جبکہ اتر پردیش کے ہی ضلع بارہ بنکی کی انتظامیہ نے 112 سال پرانی مسجد کو راتوں رات شہید کرکے اس کا ملبہ بھی موقع سے غائب کردیا ہے.ضلع گورکھ پور کے قلب میں واقع 52 ایکڑ پر پھیلے گورکھ ناتھ مندر اور مٹھ کے سربراہ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہیں اور جس زمین پر یہ مندر قائم ہے وہ اودھ (لکھنو) کے نواب آصف الدولہ نے بطور عطیہ مندر کی تعمیر کے لیے دی تھی.

مندر کے قریب رہائش پذیر جن 11 مسلمان خاندانوں کو ہٹانے کی جبری کارروائی شروع کی گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ حکومتی اہلکاروں اور انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے غنڈوں نے انہیں خاندانوں سمیت زندہ جلانے کی دھمکی دے کر ان سے ایک کاغذ پر دستخط لیے گئے ہیں جس پر کسی سرکاری محکمے کا نام لکھا تھا نہ سرکاری عہدیدار کا نام ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ اور عدالتیں میں بھی ان کی شنوائی نہیں ہورہی.مقامی رہائشی مشیر احمد نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہم اپنی زمین اور مکانات دینے کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیںانہوں نے کہاکہ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ مندر کے کسی سربراہ نے کبھی ہمارے یہاں رہنے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا انہوں نے بتایاکہ انتظامیہ کے عہدیداروں اور آرایس ایس کے دہشت گردوں نے ان سے زبردستی کاغذات پر دستخط کروائے انہوں نے بتایا کہ آرایس ایس کے غنڈے سرکاری عہدیداروں اور پولیس ساتھ آئے اور کہاکہ تم سرکار سے نہیں لڑ پاؤ گے ہمیں اتنا ڈرایا گیا کہ ہم ایک کاغذ پر دستخط کر بیٹھے ہمیں خاندانوں سمیت زندہ جلانے کی دھمکیاں سرکاری اہلکاروں اور پولیس کے سامنے دی گئیں تو ہم کس سے فریاد کریں.انہوں نے کہاکہ ہم جانتے ہیں ہاشم پورہ میں کیا ہوا تھا اسی ڈر سے ہم سے دستخط کردیئے کہ کہیں ہمیں بھی ٹرک میں بھر کر کہیں ہلاک نہ کر دیا جائے. بھارتی ریلولے کے ریٹائرڈ افسرجاوید اختر نے بتایا کہ ہمیں کوئی سرکاری نوٹس نہیں دیا گیا محض غنڈہ گردی سے ایک سادہ کاغذ پر دستخط لیے گئے جس کی وجہ سے ہم سب پریشان ہیںانہوں نے کہاکہ

میری عمر 71 برس ہے میں نے اپنی پوری زندگی یہیں پر گزاری ہے جس مکان میں، میں اور میرا خاندان رہتا ہے اس کو میرے دادا نے بنوایا تھا انہوں نے کہاکہ جب کسی خاندان کو اپنے گھر سے نکالا جاتا ہے تو اس کے لیے ایک متبادل جگہ کا انتظام کیا جاتا ہے ہمارے لیے متبادل جگہ کا بھی انتظام نہیں کیا گیا ہم نے انتظامیہ کے عہدیداروں سے پوچھا کہ ہم ایک لمبے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں، ہمارا کبھی ہندوں سے جھگڑا نہیں ہوا لیکن آج ایسی کیا نوبت آئی کہ ہمیں چلے جانے کو کہا جا رہا ہے.انہوں نے بتایا کہ سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ حکم وفاقی حکومت سے ملا ہے اور ہمارے

حد اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کے گھر مندر کی’ ’سکیورٹی“ کے لیے توڑے جائیں گے لیکن اصل منصوبہ کیا ہے ہمیں بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جس کاغذ پر مندر کے احاطے کے قریب رہائش پذیر 11 میں سے 9 مسلمان خاندانوں کے دستخط لیے گئے ہیں ہندی زبان میں تحریر اس کاغذ جس کو راضی نامہ‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن اس پرکسی سرکاری دفتر کا نام لکھا ہے نہ کسی سرکاری افسر کا اس کاغذ میں 11 خاندانوں کے ناموں کے اوپر لکھا ہے”گورکھ ناتھ مندر کی سکیورٹی نیز اس کے گرد و پیش پولیس فورس کی

تعیناتی کے لیے ہم درج ذیل افراد اپنی زمین اور گھر حکومت کو منتقل کرنے پر راضی ہیںہمیں اپنی زمین دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے“ضلع مجسٹریٹ گورکھ پور وجیندر پانڈیان نے میں دعویٰ کیا ہے کہ کسی سے بھی زبردستی راضی نامے پر دستخط نہیں لیے گئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ان کو اپنی زمین اور مکانوں کے عوض کروڑوں روپے ملنے والے تھے.نئی دہلی کے صحافی مسیح الزماں انصاری کوگورکھ پور ضلع مجسٹریٹ وجیندر پانڈیان نے اس معاملے پر رپورٹ کرنے پر سخت دفعات بشمول نیشنل سکیورٹی ایکٹ یا این ایس اے کے تحت مقدمے درج کرنے اور جیل بھیجنے کی دھمکی دی

ہے انہوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیںمسیح الزماں انصاری نے ضلع مجسٹریٹ وجیندر پانڈیان سے ہونے والی اپنی بات چیت کی آڈیو وائرل کر دی ہے جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”جو بھی اس معاملے کے بارے میں کچھ شائع کرے گا اس کے خلاف ہم مقدمہ درج کریں گے این ایس اے کی دفعہ لگائیں گے ہم کوئی ہلکی پھلکی دفعہ نہیں لگائیں گے سب جیل جائیں گے“.گورکھ پور کے ایک پڑوسی ضلع سے تعلق رکھنے والے مسیح الزماں نے بتایا کہ جب میں نے ضلع مجسٹریٹ کی دھمکی کے باوجود معاملے پر سٹوری کی تو انتظامیہ کے عہدیدار‘

سب ضلع مجسٹریٹ اور تحصیلدار دوبارہ مسلمان خاندانوں کے گھر گئے اور ان سے کہا کہ آپ لوگ ویڈیو کیمرے کے سامنے یہ بات کہو کہ ہم اپنی مرضی سے یہ زمین دے رہے ہیں لیکن ان خاندانوں میں ہمت آ گئی تھی اور انہوں نے صاف انکار کر دیا ان مسلمان خاندانوں نے سرکاری عہدیداروں سے کہا کہ آپ ہمیں پہلے قانونی نوٹس بھیج دیں پھر ہم سوچیں گے ہمیں کیا کرنا چاہیے.مسیح الزمان کے مطابق 1998 میں جب یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور کے رکن پارلیمان بنے تب سے وہاں لگاتار عجیب ڈر و خوف کا ماحول بنا ہوا ہے یوگی نے 15 سال پہلے اردو بازار کا نام تبدیل کر کے ہندی بازار کر دیا میاں بازار کو مایا بازار کر دیا اس ڈر و خوف کی وجہ سے مسلمان بہت زیادہ خاموش رہتے ہیں میں نے ڈاکٹر کفیل کا معاملہ اٹھایا تو مجھے تب بھی لگاتار دھمکیاں ملتی رہیں.

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button