حکومت کا پاکستان اسٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ چلانے سے انکار، وفاقی وزیر نے وجہ بھی بتادی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پاکستان اسٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کے حوالے سے حکومتی موقف بھی آگیا ، وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل کے آکسیجن پلانٹ کو چلانے میں کچھ مسئلہ ہے ، اس لیے پلانٹ شاید ایمرجنسی میں چالو نہ ہوسکے ۔ تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ میری وزیر صنعت و پیداوار سے بھی بات ہوئی ہے ، وزارت صنعت اسٹیل ملز کے پلانٹ کے معاملے کو دیکھ رہی ہے تاہم لگتا ہے پاکستان اسٹیل کے آکسیجن پلانٹ کو چالو کرنے میں مسئلہ ہے ، اس لیے پاکستان اسٹیل کا پلانٹ شاید ایمرجنسی میں چالو نہ ہوسکے ۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی وینٹی لیٹر کی پیداوار نہیں ہے ، این آر ٹی سی اور پرائیویٹ فرمز وینٹی لیٹرز بنا رہی ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ بھی ہماری پوری ہمدردیاں ہیں ، بھارت کے ساتھ جتنا ہوسکا اتنی مدد کریں گے۔یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین نے ادارے کا برسوں سے بند آکیسجن پلانٹ ہنگامی بنیادوں پر صرف ایک ہفتے میں فعال کرنے کی پیشکش کی ہے ، جس سے یومیہ 520 ٹن 99 اعشاریہ 5 فیصد خالص آکسیجن پیدا ہوسکے گی اور ملک میں آکسیجن کی قلت کا خدشہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا ، اس مقصد کے لیے پاکستان اسٹیل کے ملازمین اور ورکرز یونین کے رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان اسٹیل کے آکسیجن پلانٹ کو فعال کرکے پورے پاکستان میں آکسیجن کی طلب پوری کی جاسکتی ہے اور آکسیجن کی بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا ۔رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹیل کا آکسیجن پلانٹ 2015ء سے بند پڑا ہے ، جسے صرف 8 سے 12 روز میں فعال کیا جاسکتا ہے ، اس پلانٹ کو چلانے کے لیے 40 افراد پر مشتمل عملے کی ضرورت ہوگی ، اب چوں کہ ملک کو ضرورت ہے تو ہنگامی بنیادوں پر 24 گھنٹے کام کر کےصرف ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ ادارے کے فیبریکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں آکسیجن کے سلنڈرز بھی تیار کیے جاسکتے ہیں ۔

پاکستان اسٹیل ملز ملازمین کہتے ہیں کہ اگر اس وقت پاکستان اسٹیل آکسیجن پلانٹ چل رہا ہوتا تو آج پورے پاکستان میں کورونا کے متاثرین کو ہسپتالوں میں آکسیجن کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی تھی تاہم آکسیجن پلانٹ 2015ء میں چلتی حالت میں یہ کہ کر بند کردیا گیا کہ جب اسٹیل ہی نہیں بنا رہے تو آکسیجن کی کیا ضرورت ہے ، اس پلانٹ میں 40 افراد کام کرتے تھے جن میں سے کچھ کو نکال دیا گیا ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button