فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے بین الاقوامی اثرات سے آگاہ کردیا گیا

لاہور (نیوز ڈیسک)صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے فرانس کے سفیر کو نکالاتو اس سے بین الاقوامی سطح پر اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکی ہوئی ہے، پاکستان مکمل طور پر ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے پوری طرح نہیں نکلا اور اس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان جتنی کوششیں کر رہا ہے، وہ سب سبوتاژ ہو جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند دنوں میں جو واقعات ہوئے ان کی نوعیت مختلف تھی لیکن اُن میں سے چند واقعات ایسے تھے جن میں براہ راست ریاست کو چیلنج کیا گیا۔

پچھلے چار پانچ دنوں میں جس طرح شاہراہیں بند کی گئیں، جی ٹی روڈ ، اسپتال بند کیے گئے ، ایسی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔اس جماعت کا مجموعی طور پر جو رویہ ہے ، ہر کوئی سیاسی رویہ بھی رکھتا ہے اور سیاسی رویے میں آپ لاجک پیش کر کے کسی کے ساتھ بیٹھ کر اپنا پوائنٹ منواتے ہیں۔صوبائی وزیر نے کہا کہ اگر آپ کے پوائنٹ آف ویو کے ساتھ کوئی اتفاق نہیں کرتا تو آپ دوسرے کے پوائنٹ آف ویو کو دیکھتے ہیں اور اگر اُس کی منطق ٹھیک ہے تو آپ وہ مان لیتے ہیں۔ راجہ بشارت نے کہا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہہ ان کے ہاں بات چیت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ دو چار لوگ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو پورے ملک پر مسلط کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس جماعت کے لوگوں کو چاہئیے تھا کہ کم از کم ایک ذمہ دار اور ذمہ دار شہری بنتے اور کم از کم ایک ایسی اپروچ رکھتے جس سے ملک کا مفاد کسی طور بھی خطرے میں نہ ہوتا۔ ان کا جو نعرہ ہے کوئی مسلمان اس سے اختلاف نہیں کر سکتا لیکن اس نعرے کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نعرے کو ایسے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کی کوئی منطق نہیں ہے۔اگر اب یہ کہا جائے کہ اگر فرانس کا سفیر یہاں سے نہ گیا تو یہ خدانخواستہ توہین رسالت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو آپس میں جوڑتے وقت بھی ہمیں سوچنا چاہئیے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر جو بھی مذاکرات ہوئے میں اُن ٹیموں کا حصہ رہا لیکن میں نے کبھی حکومت کو اتنا نرم رویہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ،

لیکن ایسی ہٹ دھرمی اور رویہ رکھنا کہ آپ ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہ ہلیں تو ایسے میں سب کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انتہائی سطح پر پہنچ کر یہ فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ تب کیا گیا جب ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے پولیس کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا اس وقت کوئی بھی جماعت حکومت میں ہوتی اُس کا یہی فیصلہ ہوتا جو ہم نے کیا کہ ملک کو ایک ایسے گروہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا جو گروہ منطق سے ہٹ کر اپنے پوائنٹ آف ویو کو حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button