سن کر تسلی ملی کہ مجرم کبھی دن کا اجالانہیں دیکھ سکے گا،جیسنڈاآرڈرن
نیوز ی لینڈ (نیوزڈیسک) نیوزی لینڈ کی عدالت نے کرائسٹ چرچ حملہ آور کو ملکی تاریخ کی سخت ترین سزا دے کر پوری دنیا کے لیے مثال قائم کر دی۔بتایا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور اور اسلامک سینٹر میں فائرنگ کر کے 51 مسلمانوں کو قتل اور 40 سے زیادہ کو زخمی کرنے والے آسٹریلوی شہری برینٹن ٹارنٹ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔وہ سزا کے دوران پے رول پر رہائی کی سہولت بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ نیوزی لینڈ کی کسی عدالت کی طرف سے یہ اب تک سنائی جانے والی سب سے سخت سزا ہے۔ نیوزی لینڈ کی عدالت نے کرائسٹ چرچ سانحے کے مجرم کو
معافی کے حق بغیر عمر قید کی سزا سنائی۔نیوزی لینڈ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مجرم کو ایسی سزا سنائی گئی ہے۔وزیراعظم جسینڈا آرڈرن نے عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سن کر تسلی ملی کہ مجرم کبھی دن کا اجالا نہیں دیکھ سکے گا۔یہ ایسا جرم تھا جو نیوزی لینڈ کی تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا۔مجرم کو سزا بھی وہی ملی جو پہلے کسی کو نہیں ملی۔15 مارچ کے درد کی شدت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔واضح رہے کہ سفید فام نسل کی برتری پر یقین رکھنے والے 29 سالہ مجرم نے عدالت کے روبرو اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔ برینٹن ٹارنٹ پر 51 مسلمانوں کے قتل، 40 کے اقدام قتل اور دہشت گردی کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔مقدمہ کی سماعت کرنے والے کرائسٹ چرچ ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر نے کہا کہ مجرم کے لئے کسی معینہ مدت کی سزا کافی نہیں ہوگی۔ جج نے مزید کہا کہ مجرم کے جرم اتنے گھنائونے ہیں کہ اپنی باقی تمام عمر جیل میں گذارنے کے باوجود وہ ان جرائم کی پوری سزا نہیں بھگت سکے گا۔ جج نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ مجرم کو اپنے گھنائونے جرائم پر کوئی پچھتاوا اور افسوس بھی نہیں ہے۔سزا سنائے جانے کے وقت مجرم کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ اس نے عدالتی فیصلے یا جج کے ریمارکس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ جج نے مزید کہا کہ مجرم ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اپنے دل میں نفرت لے کر ہمارے ملک میں آیا اور اس چیز کی ہمارے ملک سمیت دنیا بھر میں کوئی جگہ نہیں۔ جج نے مجرم سے دریافت کیا کہ وہ اس موقع پر کچھ کہنا چاہتا ہے تاہم مجرم کچھ نہیں بولا۔ قبل ازین استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ مجرم نے اپنے جرم کی بہت تفصیل سے منصوبہ بندی کی تھی اور وہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دہشت زدہ بھی کرنا چاہتا تھا