پاکستان اور دیگر ممالک کو سالوں تک ویکسین کا انتظار کرنا پڑسکتا ہے،خبردار کردیا گیا

جنیوا(نیوز ڈیسک )عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی نئی قسم دریافت ہونا معمول کی بات ہے اور یہ قابو سے باہر نہیں اس لیے اس پر غیرمعمولی ردعمل کا اظہار نہیں ہونا چاہیے دنیا کے بیشتر ممالک نے خوفزدہ ہوکر برطانیہ سے سفری رابطے منقطع کر دیے اور یورپی ممالک نے سرحدیں اور زمینی راستے بھی بند کردیئے ہیںجس کی وجہ سے برطانیہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے.رپورٹ کے مطابق برطانوی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے اور تازہ ترین صورتحال سے جہاں کاروبار دوبارہ بند ہوگئے ہیں وہیں برطانیہ کے دوبڑے کمائی کے

ذریعے سیاحت اور اعلی تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ جانے والے طالب علموں کی آمد رفت پر بھی گہرا اثر پڑے گا . بریگزیٹ کے بعد برطانیہ اپنی معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں میں لگا ہے تاہم کورونا کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ کو بھی بڑا دھچکا پہنچا ہے اور چھوٹے کاروبار جوکہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی بار بار بندش سے برطانوی معیشت زوال کا شکار ہے‘عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی چیف مائیک رائن نے کہا ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ کے دوران نئی قسم دریافت ہونا معمول کی بات ہے اور یہ قابو سے باہرنہیں.واضح رہے کہ اس کے برعکس برطانیہ کے سیکرٹری صحت میٹ ہینکوک نے اس نئی قسم کے لیے سخت شدت کا لفظ استعمال کیا تھا ادھر برطانوی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان، زمبابوے اور میکسیکو جیسے ممالک کو سالوں تک ویکسین کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے اورپاکستان، زمبابوے اور میکسیکو جیسے کچھ ممالک کے لیے ویکسین کے حصول کی جنگ طویل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ چینی کمپنیوں کے علاوہ دیگر کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ممکنہ طور پر جنوری سے مارچ2021میں ویکسین عام شہریوں کے لیے دستیاب ہوگی.چینی کمپنی پاکستان میں پہلے ہی رضاکاروں پر ٹرائل کے حتمی مراحل میں ہے ویکسین کے سرکاری طور پر ٹرائل کا یہ تیسرا اور آخری مرحلہ ہے حکومتی ترجمان کا کہنا ہے پاکستان میں ویکسین مفت دستیاب ہوگی پہلے مرحلے میں ویکسین طبی عملے اور وائرس کا

شکار زیرعلاج مریضوں کو دی جائے گی جوکہ ممکنہ طور پر جنوری کے آغازسے شروع کردی جائے گی . ادھر بعض ماہرین ابھی تک وائرس کی ہیت اور اب تک اس پر ہونے والی تحقیق پر شکوک وشبہات کا اظہار کررہے ہیں بھارت کی سب سے بڑی آیوویدک کمپنی پتنجلی آیوروید کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس تھیوری کے ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیں کیئے جاسکے کہ خون کے لوتھڑوں سے پھیپھڑے چوک ہوکر کام کرنا بند کردیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ماہرین کو حقائق سامنے لانا چاہیں.پاکستان کے ممتازہربلسٹ اور ہومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹر نظامی بھی بابا رام دیو سے متفق ہیں ان کا کہنا ہے کہ

ہندوستان کے معروف آیوویدک ڈاکٹر حکیم اجمل خان میڈیسن کی دنیا میں نصابی کتاب کا درجہ رکھنے والی اپنی تصنیف ”حاذق“میں نزلہ وزکام کی اقسام میں نہ صرف کورونا جیسی علامات رکھنے والے وبائی زکام کا ذکر ڈیڑھ سو سال پہلے کرچکے ہیں بلکہ ان کی تحقیق کے مطابق خون کے لوتھڑے نہیں بلکہ ریشہ اپنی ہیت تبدیل کرکے پھیپھڑوں کے مسام کو بند کردیتا ہے جس سے مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور اس سے مریض کی موت بھی ہوسکتی ہے تاہم یہ صورتحال مرض کا شکار ہونے والے صرف چند فیصد مریضوں کو ہی پیش آتی ہے انہوں نے کہا کہ یہی وجہ سے دنیا

بھر وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں میں صحت یاب ہونے والوں اور مرنے والوں کا تناسب دیکھیں تو مرض کا شکار ہونے والوں کے مقابلے میں اموات کی شرح چند فیصد بنتی ہے .بھارت کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹرشیوکمار بھی اس تھیوری کے حامی ہیں اور ان کا بھی کہنا ہے کہ حقائق جاننا عام شہریوں کا حق ہے لہذا ہلاک شدگان کی پوسٹ مارٹم رپورٹس کو جمع کیا جائے مریضوں کے پھیپھڑوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے ‘ہلاک شدگان کے پھیپھڑوں سے ہمیں کیا معلومات حاصل ہوئی ہیں انہیں منظرعام پر لایا جائے ورنہ اسی طرح یہ سازشی تھوریزدنیا میں چلتی رہیں گی اور حقائق

پردے میں پڑے رہ جائیں گے.واضح رہے کہ اب تک 189 ممالک ”کوویکس اِنیشی ایٹو“ پر دستخط کر چکے ہیں اس کوشش کا مقصد دنیا بھر کو ایک عالمی بلاک کی صورت میں متحد کرنا ہے تا کہ دوا ساز کمپنیوں سے سودے طے کرنا آسان ہوںچین کی ایک سائنسدان نے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کورونا وائرس ان کی لیبارٹری سے نکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس شبے کو دور کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے تحقیقاتی دورے کا استقبال کریں گی.پروفیسر شی ژینگالی کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کووڈ 19 کی ابتدا کے بارے میں تحقیقات کرنے کے لیے آئندہ ماہ چین کے شہر ووہان جانے کی تیاری کر رہی ہے دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے 16 لاکھ 49 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں جبکہ مصدقہ متاثرین سات کروڑ 48 لاکھ سے زیادہ ہیں.

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button