انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی کی آئین پاکستان کے 50 سال پر دو روزہ مشترکہ کانفرنس

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) ، قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ ، اور بااختیارمقامی حکومتوں کے زریعے سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اختیارات کی منصفانہ تقسیم پاکستان کی وفاقیت ، آئین کے تحفظ اور مستقبل کے لیے نا گزیر ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد اور فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی کے شعبہِ قانون کے زیر اہتمام ‘پاکستان کا آئین: اگلے پچاس سالوں کے لیے اسباق کے موضوع پر دو روزہ بین القوامی کانفرنس کے دوران سینیئر سیاستدانوں، قانون ، ریاستی اور آئینی امور کے ماہرین نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرنے والے اہم مقررین میں سینیئر سیاستدان راجہ ظفر الحق، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق گورنر بلوچستان اور خیبر پختونخوا اویس احمد غنی ، بلوچستان کے عبوری وزیر قانون امان اللہ کنرانی ، سابق وائس چانسلر، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ حامد ، ڈین، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شعیب اختر ، سابق وفاقی سیکرٹری، بین الصوبائی رابطہ کی وزارت کے سابق وفاقی سیکرٹری آفتاب احمدمیمن ، سابق وزیر برائے لوکل گورنمنٹ، خیبر پختونخوا عنایت اللہ خان، سابق وفاقی وزیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی ، پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب ، اسکول آف لاء، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن ، سربراہ، شعبہ قانون، فاطمہ جناح وومین یونیورسٹی ڈاکٹر نادیہ خادم ، ایڈوائزر ریسرچ آئی پی ایس اور سابق ڈی جی، پاکستان اسٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام شامل تھے۔
مقررین نے آئین کے بارے میں آگاہی اوربامعنی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے متعلق گفتگو کی۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ چونکہ 1973 کا آئین فطری طور پر وفاقیت کو مقدم رکھتا ہے، جس کا مقصد صوبائی اور اقلیتی حقوق کا تحفظ اور منصفانہ سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے، اس لیے یہ اتحاد پاکستان کی بقا کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی فعالیت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں، جس کا مقصد صوبوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، لیکن اس کا سیکرٹریٹ تمام عملی مقاصد کے لیے غیر فعال ہے۔
امان اللہ کنرانی نے مزید کہا کہ یہ معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے کیونکہ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی مشترکہ مفادات کونسل کے لیے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ مقررین نے کہا کہ یہ غیر فعالی وفاق کی روح کو متاثر کر رہی ہے اور صوبوں میں عدم اطمینان کو ہوا دے رہی ہے کیونکہ ان کے حقوق کو برقرار نہیں رکھا جا رہا۔ مزید برآں، قومی مالیاتی کمیشن صوبوں کے لیے اپنے ایوارڈز نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 2010 کے بعد میں آنے والے این ایف سی اتفاق رائے تک پہنچنے اور اپنے مقررہ وقت کے اندر ایوارڈز کو نافذ کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے ، جو کہ آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ مقررین نے زور دیا کہ مستقل مزاجی کے ساتھ این ایف سی ایوارڈز کو چلانے کے لیے ماتحت قانون سازی کی ضرورت ہے۔
آفتاب میمن نے کہا کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات میں خرابی ، خاص طور پراٹھارویں ترمیم نے ملک کے لیے مالیاتی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے مسائل پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجوں سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے اٹھارویں ترمیم اور عدلیہ کی انتظامیہ سے علاحدگی جیسے اہم فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ناگزیر ہے۔
ماہرین نے کہا کہ ایک بنیادی مسئلہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کا منظرنامہ ہے، جس میں مرکز اور صوبےمنتقل شدہ محکموں کی تنظیم نو کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وفاقی مالیاتی قوت میں کمی واقع ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو اٹھارویں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کے لیے بنیاد تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ ملک کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
مقررین نے تجویز پیش کی کہ فنڈز کی فراہمی کے لیے این ایف سی اور صوبوں کے درمیان کوآرڈنیشن ایک حقیقت پسندانہ متبادل ہو سکتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کی وفاق کے ساتھ صوبائی تفاوتوں کا حل ترمیم کے آرٹیکل 140(اے) میں ہے، یعنی سیاسی، مالیاتی اور انتظامی حکام کو مقامی حکومتوں کے حوالے کرنا۔
مقررین نے کہا کہ اس کے علاوہ آئین میں مقامی حکومتوں کے حوالے سے ایک باب شامل کیا جائے تاکہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات میں رکاوٹ نہ بن سکیں جیسا کہ اس وقت ہو رہا ہے۔ یہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کے لیے مقامی حکومتوں کے اختیارات اور باقاعدگی سے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے گا۔ "سیاسی نظام کی ناکامی کا مطلب کیا آئین کی ناکامی ہے؟”، یہ سوال اویس غنی نے قومی سیاسی نظام کی غلط حرکیات کو اجاگر کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی نظام اور قومی پالیسیاں اس بات کو مدنظر رکھ کر بنائی جائیں کہ پاکستان ایک فطری ریاست ہے۔
خالد رحمٰن نے بھی انتخابی نظام میں اصلاحات اور متناسب نمائندگی کے نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ انہوں نے بلدیاتی اداروں کی حقیقی شکل میں بحالی پر بھی زور دیا کیونکہ یہ مستقبل کے سیاستدانوں کو تیار کرنے کے لیے نرسری کا کام کرتے ہیں۔ دوسری جانب راجہ ظفر الحق نے مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا تاکہ آئین عوام کے لیے امید کی کرن بنا رہے۔ احمد بلال نے کہا کہ مستقبل کے جمہوری فریم ورک کا سب سے اہم پہلو سول ملٹری تعلقات ہیں۔
انہوں نے سول ملٹری ڈائیلاگ کے ذریعے آگے بڑھنے پر زور دیا، جس کے لیے ایک فعال قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) ایک بہترین فورم فراہم کرتی ہے۔ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیاکہ ملک میں ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں ہر کوئی آئین کے مینڈیٹ کو نافذ کرنے اور اس کے تحفظ کے لیے اپنی اپنی سطح پر پوری کوشش کرے۔ کانفرنس میں چھ اہم موضوعات پر آٹھ سیشنز شامل تھے جن میں آٹھ قومی اور تین بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے محققین نے آئینی امور سے متعلق مختلف تحقیقی موضوعات پر 25 مقالے پیش کیے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button