مہنگائی اور دیگر مسائل نے زرعی شعبے کو غیر منافع بخش بنا دیا، اصلاح کی ضرورت:ماہرین

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) ایشیا کے خطے میں زبردست زرعی صلاحیت موجود ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا کر رہی ہے ، علاقائی ریاستوں کے درمیان سرحد پار تجارت کے ذریعے ماحولیاتی انحطاط فوڈ سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نےپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا نے ویبینار کا موضوع "انوویشن فار فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریجنل ٹریڈ فار ایگریکلچر پروموشن” تھا جس میزبانی کے فرائض ایس ڈی پی آئی کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر عبداللہ خالد نے انجام دیئے۔ پاکستان میں کینیڈین سفارتخانے کے فرسٹ سیکرٹری جیمز میکنی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ تجارت، فوڈ سیکیورٹی اور زراعت کے شعبے کے مسائل کو حل کرنےکے لئے علاقائی تعاون بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کینیڈا اور پاکستان کے درمیان اناج، کینولا اور دیگر زرعی مصنوعات ب کی تجارت کی ایک طویل تاریخ ہے، تاہم پاکستان کو کو اپنی موجودہ زرعی پیداوار کو تبدیل کرنے کے لئے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ حیاتیات (جی ایم اوز) سے متعلق قانون سازی میں ترمیم کرنے کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کوغذائی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پائیدار زرعی حل تیار کرنا چاہئے ۔ایس ڈی پی آئی کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے اپنے استقبالیہ کلمات میں شرکاء کو بتایا کہ ایس ڈی پی آئی نے 17 اور 18 نومبر کو ہمسایہ ممالک کی ٹیموں کو فوڈ سیکورٹی، زراعت اور تجارت کے بارے میںhackathon مباحثہ کے لئے مدعو کیا ہے۔
انہوں نے کہا، "غذائی تحفظ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے ۔ دنیا کی 9.2 فیصد آبادی کو بھوک اور غذائی قلت کا سامنا ہےانہوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگوں کو روزانہ صحت مند غذا میسر نہیںجبکہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ بھی ان کی قوت خرید کو متاثر کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ایک وسیع البنیاد حکمت عملی کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کاشتکاروں کو کھاد کی عدم دستیابی ، ناقص معیار، پانی کی قلت، فصل کٹائی کے دوران نقصانات، مشینری اور آلات کی کمی اور غیر یقینی کریڈٹ شرائط جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ ملک میں نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی، واٹر پالیسی، پلاننگ ڈویژن کے فائیو ای فریم ورک سے لے کر تمام شعبوں کیلئے قانون موجود ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی) کے سینئر ایڈوائزر پیئر بونتھونیو نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی اور سرحد پار تجارت کے مسائل ایک دوسرے سے بہت قریب سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ زرعی اشیا کی تجارت لاکھوں افرادی قوت کا ذریعہ معاش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد پار تجارت کے دوران ٹرانزٹ کے دوران تاخیر کی صورت میں زرعی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ بین الاقوامی تجارت میں جلد خراب ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں 70 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی تاخیر کو کم سے کم کرکے فوڈ سیکیورٹی کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ من فارمز کی سی ای او ایما حیات ٹمن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی زرعی شعبے پر سنگین اثرات مرتب کر رہی ہے کیونکہ اس کا براہ راست اثر فصلوں کی پیداوار اور کاشت کاری کی زمینوں پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کیڑوں اور پرندوں کی زندگی کے لئے نقصان دہ کیمیائی حشرہ کش دواؤں اور کھادوں کے مقابلے میں کسانوں کو سبز کھاد کی طرف لانے کے لئے تحقیق اور ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی پروفیسر آف اکنامکس پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ یاسمین نے کہا کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے صحت مند غذائی اجناس کی دستیابی، رسائی اور کفایت شعاری فوڈ سکیورٹی کے تصور کی وضاحت کرتی ہے اور یہ فوڈ سیکیورٹی کو بڑھانے کے ہدف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سنجیدگی سے توجہ دینے کی متقاضی ہیں کیونکہ آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات اتنے ہی کم ہوں گے۔
وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے اکنامک کنسلٹنٹ ڈاکٹر ہارون سرور نے کہا کہ غیر زرعی شعبے کے مقابلے میں زرعی شعبہ منافع بخش نہیں ہے جبکہ کاشتکاروں کو منافع بخش مراعات سے اچھی پیداوار حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ڈاکٹر سرور نے کہا کہ کاشتکاروں کو قرضوں تک رسائی کا فقدان بھی ایک مسئلہ ہے جبکہ باضابطہ کولیٹرل فری کریڈٹ، منافع بخش بیج کی قیمت اور معیاری کھاد سستے داموں خوراک کی مناسب دستیابی کو یقینی بنا سکتی ہے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button