سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت جاری
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنےکی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شروع ہوگئی ہے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی لکررہے ہیں، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کررہا ہے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اپنا تحریری جواب اٹاری جنرل کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں
وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا
پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں،وفاقی حکومت
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں،درخواست میں استدعا
سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی۔
عدالتی کارروائی براہ نشر ہو گی یا نہیں؟ فل کورٹ سماعت سے پہلے فل کورٹ اجلاس ہو گا
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی سماعت براہ راست نشر ہو گی یا نہیں؟ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں فل کورٹ سماعت سے قبل فل کورٹ اجلاس بھی ہو رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی براہ راست نشریات کے طریقہ کار سمیت مختلف عدالتی معاملات پر غور کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان ٹیلی ویژن کو فل کورٹ کی براہ راست نشریات کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس پر پاکستان ٹیلی ویژن کی ٹیم نے سپریم کورٹ کا دورہ کر کے جائزہ لیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا تھا اور حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس اپریل میں کسی بھی آئینی مقدمے کے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔