لفافہ معیشت۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان

یوں تو کسی بھی صحافی کو لفافہ کے زریں لقب سے نوازنا ہمارا وطیرہ ہے۔اور آج کے دور میں شائد ہی کوئی صحافی اس فتوی سے محفوظ ہو لیکن دوسری طرف اس اصطلاح کا مطلب وہ صحافی ہے جس کا صحافتی چال چلن درست نہ ہو اور صحافتی ساخت کے اعتبار سے بونا ہو۔اگر اس معیار پر پرکھا جاے تو ترقی کی چال اور اعداد و شمار کے چلن کو دیکھ کر معیشت کو لفافہ معیشت کہا جا سکتا ہے۔ معاشی اعشاریوں کو ماپنےاور عوام کو بتانے کا معیار ایسا غیر منطقی ہے کہ کسی معاشی تھیوری یا فارمولے کے تابع نہیں. مگر عوام کو دکھاتے وقت ایک بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سننے اور دیکھنے والوں کو معیشت درست سمت میں نظر آے۔اس حکومت نے تقریبا اپنے آدھے عمومی دور حکومت میں جتنے پاپڑ معیشت کو درست سمت میں دکھانے کے لیے بیلے ہیں اگر اتنی محنت اور توجہ اسے بہتر کرنے پر ہوتی تو آج وزراء اور سوشل میڈیا کی فوج اپنی توانائی معیشت کا راگ الاپنے اور ناقدین کی پگڑیاں ناپنے کی بجائے کہیں اور صرف کر رہی ہوتی۔
بڑھتی منہگائی، جیب جلاتے بل، کمر توڑ ٹیکس اور صفر کے افق سے دور ڈوبتی جی ڈی پی کے باوجود آپکو باور کروایا جاتا ہے کہ معیشت درست سمت میں ہے. لطف کی بات یہ ہے کہ ہر بار اسکے ساتھ "اب” اور "ملکی تاریخ میں پہلی بار” ضرور دہرایا جاتا ہے. کسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہو تو آپکو بتایا جاتا ہے کہ طول بلد پر واقع فلاں ملک سے پاکستان میں قیمت کم ہے، کبھی اسکا موازنہ ایشاء، امریکہ تو کبھی اپنے ہمسایوں سے کر کے عوام کو مطمن کیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی عوام غیر مطمن یا سیخ پا نظر آئے تو اسے رام کرنے کیلیے آخری حربہ کے طور پر بتایا جاتا ہے کہ منہگائی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ملکی معیشت یا ماشیت "اب” درست سمت میں آگئی ہے. برآمدات کی ہی مثال لے لیجیے. اب چونکہ دو تین سال سے برآمدات مجموعی طور پر کم ہیں اور مجموعی حجم بتانے سے عقدہ کھل جائے گا اس لیے عوام کو بتایا جاتا ہے کہ پچھلے ہفتہ یا مہینہ کی نسبت تاریخی اضافہ ہے یا پچھلے سال کے اسی مہینہ کی نسبت زیادہ برآمدات ہیں یا پچھلی حکومت کے تیسرے سال کے نومبر میں ہونے والی برآمدات سے اس حکومت کے تیسرے سال کے نومبر میں زیادہ برآمدات ہیں. کبھی کبھی تو آپ کی ہنستی رگ کو چھیڑنے کیلیے شہباز گل صاحب ویڈیو پیغام کے زریعے معاشی ترقی کے تاریخی ریکارڈ کی نوک پلک سنوارتے ہیں یا بتایا جاتا ہے کہ ستر سال میں پہلی بار نومبر کے تیسرے ہفتے کے دوسرے دن اضافہ مثبت ہے.
بل، آٹا، چینی، دال چاول یا سبزیاں ماضی قریب میں کس بھاو ملتی تھی، اب قیمتیں کیا ہیں اور وزیراعظم صاحب کے نوٹس کے بعد قیمتوں کو کیسے پر لگتے ہیں اس بحث میں نہیں پڑتے کیونکہ اس پر آپ روز نوحہ کناں ہوتے ہیں. آپکو لفافہ معیشت کے چند خدو خال بتاتے ہیں. اور اگر کسی کو محسوس ہو کہ لفافہ صحافی جان بوجھ کر معیشت کی درست سمت میں روڑے اٹکا رہے ہیں تو وہ 1956 کا دوسرے معاشی منصوبے کے اہداف اور اہداف کا حصول ضرور پڑھیں اس سے انہیں اندازہ لگانے میں آسانی ہو گی کہ ہم 70 سال پہلے جہاں سے چلے تھے اس سے تھوڑا پیچھے موجود ہیں. اب سمت درست ہے یا غلط یہ فیصلہ بھی آسان ہو گا.
حکومتی بیانیے کے مطابق اسحاق ڈار صاحب نے ڈالر کو مصنوعی طریقہ سے جامد رکھا. اب جب ڈالر بے لگام ہے تو اسے مصنوعی لگام ڈالنے کیلے ملکی زخائر صرف نہیں ہو رہے، کوئی قابل فخر بڑا ترقیاتی پروجیکٹ نہیں، ٹیکسز پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، بلنگ اور اوور بلنگ کی مد میں اینٹھی گئی رقم الگ سے. اس پر قرض کے انبار کے باوجود ذخائر پہلے سے کم ہیں مگر پھر بھی معیشت درست سمت میں. جب یہ حکومت آئی تو اسٹیٹ بنک کے ذخائر تقریبا سولہ ہزار ارب تھے جو 13 ہزار ارب سے زائد قرض لینے کے بعد بارہ اعشاریہ سات کی "بلند” سطح پر پہنچ چکے ہیں. اس کے ساتھ آپ حسب ذائقہ "اب” یا "ملکی تاریخ میں پہلی بار” کا اضافہ کر سکتے ہیں. معیشت کی لفافیت پر اگر اب بھی ایمان کامل نہیں تو مزید آگاہی کیلیے لون یا پیکجز کا مطالعہ کیجیے. اپنے ریزروز کو بہتر دکھانے کیلیے عرب امارات سے 2 ملیین ڈالر، سعودی ارب سے 2 ملین ڈالر، چائنہ سے 3 ملین ڈالر، چائنہ ٹریڈ فیسیلٹی کی مد میں 3 ملین ڈالر اور کمرشل بنک سے 5٠8 ملین ڈالر (کل ملا کے 15٠8 ملین ڈالر) کے باوجود خزانے میں 12٠7 ملین ڈالر.لیکن سمت درست ہے.اس حکومت کی سادگی کی انتھک کاوشوں سے بچایا گیا قومی خزانہ، کٹے کٹیوں اور گاڑیوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم،تیل ادھار لے کر بچایا جانے والا پیسہ شامل نہیں. غیر ملکی دورے کم کر کے بچایا بچائی جانے والی رقم، سرکاری ملازمیں سے نکالے جانے والے ملازمین اور خالی پوسٹوں کو خالی رکھ کر بچائی جانے والی تنخواہ بھی شامل نہیں ہے. اور مسلسل دو سال اکٹھا ہونے والا "ریکارڈ” ٹیکس بھی شامل نہیں ہے.
کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ زیرو بلکہ سرپلس کرنا بہت سے معیشت دانوں کی نظر میں ایک عظیم کارنامہ ہے. اسکی تفصیل، حقائق اور اثرات جلد قارئین کے سامنے رکھے جائیں گے. اس کی روشنی میں قارئین خود فیصلہ کریں گے کہ یہ ایک کارنامہ ہے یا اسے کارنامہ کہنے والے معیشت کی م، ع سے نابلد ہیں. گردشی قرضہ سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے. بے شمار ٹیکس لگانے کے بعد بھی ٹیکس کلیشن چار ہزار کی دیوار پھلانگنے سے قاصر ہے. جی ڈی پی سال کے آخر میں ڈیڑھ فیصد مثبت دکھائی جا رہی ہے. لیکن اگر آبادی کے اضافہ کو شامل کیا جائے تو تکنیکی لحاظ سے یہ منفی کی سطح پر ہی ہو گی.دوسری طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک 2 فیصد سے کم کی پروجیکشن دے رہے ہیں. در حقیقت ہماری جی ڈی پی گروتھ میں زیادہ حصہ سروسز کا شامل ہوتا ہے. جب انٹرسٹ ریٹ زیادہ ہونگے تو سروسز کی جی ڈی پی زیادہ ہو گی. لیکن فکر کی بات یہ ہے کہ اگر کلی طور پر جی ڈی پی بفرض محال یا معجزاتی طور پر 6 فیصد بھی ہو اور اس میں زراعت اور صنعتی گروتھ منفی ہوں تو ملک ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہو گا؟ برآمدات کیسے بڑھیں گی؟ عام آدمی کی زندگی میں بہتری کیسے آئے گی؟ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کم جی ڈی پی گروتھ میں ملازمت کے مواقع میسر آنا ممکن نہیں. جب یہ اعشاریے منفی ہوں یا پانچ فیصد سے کم ہوں تو پھر صرف کڑوڑ نوکریوں کے نعرے لگائے جا سکتے ہیں عملی مظاہرہ ممکن نہیں
آئی ایم ایف سے درآمد شدہ لوگوں کی مدد سے آپ کچھ برآمد نہیں کر پائیں گے. کیونکہ بریف کیس اٹھا کے نکل جانے والوں کو اپنی سی وی سے غرض ہوتی ہے نہ کہ پیچھے رہ جانے والوں کی سسکیوں سے. حکومت کو معیشت کی بحالی کیلے ایسے بندوں پر تکیہ کرنا چاہیے جو لوگوں کے حالات اور مشکلات سے آگاہ ہوں. مزید یہ کہ حکومت کو مافیا مافیا کی گردان کرنے کی بجائے اپنے آجو باجو کے صیغے بھی دیکھنے چاہیے اور ساتھ ہی خود کو یہ باور کروانا چاہیے کہ مافیا کو کنٹرول کرنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے،منہگائی کنٹرول کرنے کے موثر اور فوری انتظامات کرنے چاہیے، مخالفین کو رگیدنے اور اپوزیشن سے بڑے جلسے کرنے پر توجہ دینے سے کہیں بہتر ہے کہ عوام کیلیے آسانیاں پیدا کی جائیں. زراعت پر توجہ دینے، اور صنعتی پیداوار کی کیپسٹی بڑھانے کیلیے فوری عملی اقدامات کرنے چاہیے. قومی آمدن بڑھانے کیلیے مزید ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانا دانشمندی ہے. ان اقدامات سے آپ کو بار بار بتانا نہیں پڑے گا کہ معیشت "اب” درست سمت میں ہے.

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button