یہ خطا بار بار کون کرے۔۔۔ تحریر: معین الدین

شریف فیملی کے مفادات کے گردا گرد گھومتی نون لیگ کی سیاست کا سفر یوں تو دھائیوں پر محیط ہو چلا ۔ ذیادہ مدت تو اقتدار کے مزے لوٹتے ہی بیتی ۔مگر اب تیسری مرتبہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد دوسری مرتبہ دیس نکلا ملنے تک سفر کچھ ذیادہ ہی تکلیف دہ رہا ہے ۔مشرف دور میں ملنے والا پہلا دیس نکالا تھوڑی مدت کی قید وبند کی اذیت کے بعد ہی شاہی محلات کی پر آسائیش دنیا میں لے گیا ۔ساتھ ہی سارے مقدمات بھی اڑا لے گیا تھا ۔ واپسی بھی شاہانہ ہوئی ۔لیکن اب کے جو ہونی ہوئی تو انہونی یہ ہوئی کہ مقدمات کا تار جیسے دامن سے الجھ کر رہ گیا ہے ۔

بڑے میاں صاحب بمشکل علاج معالجے کے نام پر بدیس سدھارے تھے کہ عدالتوں نے واپسی کے حکمنامے دے ڈالے۔ تیمارداری کو ساتھ گئے چھوٹے میاں کرونا کی مشکلات کے آگے بندھ باندھنے وطن لوٹے تھے پر خود منی لانڈرنگ کے الزام میں دھرے جانے پر مشکل میں پڑ گئے ۔ شریف فیملی پر جب بھی مشکل پڑی ۔ تو نون لیگ کی صفوں میں ہلچل ضرور مچی ۔یوں لگا جیسے اچھے خاصے حسابی کتابی سے طبقے میں کسی نے یکدم انقلابی روح پھونک دی ہو ۔ مشرف دور میں بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز تحریکی جذبے کے ساتھ میدان میں آ کودیں ۔ پرجوش انداز میں منظر عام پر آنیوالی شریف فیملی کی یہ خواتین بھی معاملات طے پاتےہی پس پردہ چلی گئیں ۔ نون لیگ کے تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں دوسری مرتبہ طلاطم میاں نواز شریف کی اقتدار سے تیسری رخصتی کے بعد نظر آیا ۔جب میاں نواز شریف خود صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ ایک انقلابی سیاستدان کا روپ دھارے مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگاتے ہوئے عوامی سٹیج پر نکل آئے ۔ تبصرے ہوئے ،تجزئیے کئے گئے کہ اب یہ بخار اترنے والا نہیں ۔خیال تھا کہ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر چلنے والی نون لیگ کی مصلحت کیش قیادت اب کے بار ملکی سیاست کو نئی جہت دئے بغیر ماننے کی نہیں ۔پانامہ کے نتجے میں بننے والے مقدمات میں میاں صاحب کے ساتھ ساتھ ان کی صاحبزادی اور داماد کو بھی جیل یاترا کرنا پڑی ۔خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح جیل کی ہوائیں انقلابی روحوں کو نئی تڑپ دیں گی ۔ لیکن نون لیگ کی قیادت نے اپنی طویل خاموشی کے ساتھ اس روایت کو بھی بدل ڈالا۔

یوں نئے تبصرے اور نئے تجزئیے ناگزیر ٹھہرے ۔ پھر نکتہ دانوں نے رہائی کو خاموشی کا انعام کہا ۔ اور بدلتے انداز کو پردہ نشینوں کے پیغام کہا ۔پھر یہی نامہ وپیام اور پیامبروں کی کہانی ۔نئی شعلہ فشانی کا سبب بننے لگی ۔ ادھر عدالتوں سے واپسی کے حکمنامے آئے ۔ تو ادھر سے مجھے کیوں بلایا پر بڑھکتا بوڑھا انقلابی ایک بار پھر خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا ۔اپنے ٹیلیفون کے تار ہلا کر اپوزیشن کی کھٹائی میں پڑتی اے پی سی کا سٹیج سجایا ۔اور پھر اس سٹیج کی سکرین پر ایک انقلابی کے ساتھ ساتھ نظام کے باغی کی سی گھن گرج کے ساتھ نمودار ہوئے ۔

دوسری طرف ہر بار چراغ رگڑ کر مہنگائی کا جن نکالنے والی حکومت سے بیزار عوام بیانیوں کی جنگ سے ہٹ کر اپوزیشن کی تحریک کی شکل میں نجات کی تلاش میں ہے ۔بندہ ایماندار سہی لیکن بیکار ہو تو ۔ تبدیلی کے خوش کن نعرے کے شکنجے میں چھپے نوکیلے نشتر کھال میں اتر چکے ۔اب ایماناری کے تاج اچھالو یا کرپشن کے کانٹنے ابالو ۔ اب میاں نواز شریف سرحد پار سے کوئی بھی حد پار کرے ۔ اس کی ہر بات عوام کو بھلی لگے گی ۔ایسے میں نامہ وپیام نشر ہونے پر بھڑکنے والوں کو کوئی نیا خوش کن پیغام مل گیا تو ۔سیاست میں مداخلت نا کرنے کا اصولی موقف رکھنے والوں کو مفاہمت کی راہ سوجھ گئی تو ۔

مجھے کیوں نکالا کے بعد مجھے کیوں بلایا پر بھڑکنے والوں کو ۔ مقدمات کے ستائے راہبروں کو کوئی اپنی راہ نجات مل گئی تو ۔تحفظات کے بغیر بھی چارہ نہیں کہ اس عوام کے چارہ گروں کی روایت یہی رہی ہے ۔ ماضی کے جتنے بھی اوراق پلٹ لیں یہاں ہر تبدیلی اپنی اصل میں ہتھکنڈہ اور ہر انقلابی انداز درحقیقت سیاسی پینترہ ہی ثابت ہوا ۔ملکی سیاست کے منظر نامے میں خوش کن نعروں کے بعد عوامی بد حالی کی شکل میں آنے والی تبدیلی ہو یا شریف فیملی کے ہر انقلابی دور کے بعد خاموشی والی تبدیلی ہر خوش کن نعرے سے خوش فہمی کا شکار ہونیوالوں کیلئے۔ایک ہی پیغام دے رہی ہے کہ؎ آپ کا اعتبار کون کرے۔۔یہ خطا بار بار کون کرے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button