غزہ جنگ اور ایران
غزہ جنگ کا اغاز بلاوجہ نہیں ہوا ۔غزہ میں بسنے والے لوگ ایک طرح کی مفلوج زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ اسرائیل کی غیر قانونی اباد کاریوں کے باعث ان کا رابطہ دیگر فلسطینی علاقوں کے ساتھ بھی منقطع ہو چکا تھا یعنی نہ تو وہ شام کے بارڈر کے ساتھ منسلک تھے اور نہ ہی لینان کے ساتھ ان کا رابطہ صرف مصر کے ساتھ رہ گیا تھا (اور مصری حکومت کی منافقت تو سب لوگوں پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ بجائے مسلمانوں کا ساتھ دینے کے فرانس کو اس بات کی گارنٹی دے رہا ہے کہ غزہ سے پناہ گزینوں کو مصر میں داخل نہیں ہونے دیں گے) ۔
ایسی صورتحال میں غزہ میں بسنے والے تمام فلسطینی ایک دلدل میں پھنس چکے تھے جہاں سے نکلنا ناممکن ہو چکا تھا ایسی صورت میں اگر حماس اسرائیل پر حملہ آور نہ ہوتا تب بھی اسرائیل نے تباہی پھیلانی تھی بلکہ وہ اس سے بڑی تباہی ثابت ہوتی۔یعنی وہ ایسی مصیبت میں پھنس چکے تھے کہ یا تو وہ خاموشی سے موت کو گلے لگا لیتے یا پھر خود کو بچانے کی اخری تدبیر کا حق استعمال کرتے سو حماس نے ایسا ہی کیا۔حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملے نے اسرائیل کی دنیا پر بیٹھی ہو دھاک (ان کے پاس یہ انٹیلیجنس تو وہ انٹیلیجنس ،ان کے پاس یہ اسلحہ تو وہ اسلحہ ،ان کے پاس یہ فوج تو وہ فوج ) کو ختم کر کے رکھ دیا۔
حماس کے حملے کے بعد ایک طرح کا خوف اسرائیل کو کھائے جا رہا ہے کہ یہ محض حماس نہیں ہو سکتا بلکہ حزب اللہ کے نوجوان بھی حماس کے ساتھ غزہ میں موجود ہیں جس کی طرف امریکی صدر جو بائیڈن بار بار اشارہ بھی کر رہا ہے۔ یہ جنگ صرف حماس نہیں بلکہ حزب اللہ اور حماس کی مشترکہ جنگ ہے ۔صیہونی حکومت کے مطابق بھی حزب اللہ اور حماس کے پاس ساری ٹریننگ ,سارا اسلحہ ,سارا پیسہ ایران کا ہی ہے ۔
ایسی تمام تر صورتحال میں کچھ نا عاقبت اندیش تبصرہ کر تے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایران اس سارے معاملے میں کہاں کھڑا ہے بلکہ وہ اس سارے معاملہ کو ایرانی منافقت سے بھی تعبیر کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایران پہلے بھی اس خطہ میں القدس کی آزادی کی جنگ حزب اللہ اور حماس کے ذریعے لڑتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی کر رہا ہے،ہاں البتہ اس جنگ میں کچھ مجاہدین کہیں سے اور کچھ کہیں سے اٹھا کر ان کو جنگ کا حصہ بنا سکتا ہے اور یہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ ایسا ہو بھی رہا ہو۔ مثلا جب شام اور عراق میں داعش نے حملے کیے تو ایران نے اسی طرح کی اسٹریٹجی اپنائی تھی۔
اب لوگوں کی خواہشات پہ پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی کہ اگر وہ یہ چاہیں کہ ایران اسرائیل پر بمباری کر کے پورے اسرائیل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے اس میں چاہے بچے مریں، عورتیں مریں یا بزرگ۔۔۔پہلی بات ایران کی جانب سے ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ ایران ایک مرجع ایت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے تحت چل رہا ہے اور مراجع عظام کے ہاں خواتین اور بچوں کا قتل عام حرام ہے اور ابادیوں پر حملہ کی صورت میں خواتین اور بچے اس کی زد میں آئینگے ۔۔۔۔دوسری بات آبادیوں پر حملہ فلسطینی مسلمانوں کیساتھ دنیا کی بڑھتی ہوئی ہمدردیاں ختم کر کے رکھ دے گا ایسے میں دنیا مسلمانوں کے خلاف کھڑی ہو جائے گی اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ ایران کبھی بھی ایسا قدم اٹھائے گا۔۔
اسرائیل زمینی حملہ کرے اور اس کی جوابی کارروائی میں حزب اللہ یا حماس جواب نہ دیں تو پھر وہ لوگ حق بجانب ہو سکتے ہیں کہ ایران منافقت کر رہا ہے۔۔۔۔۔بالفرض ان نا عاقبت اندیش لوگوں کی خواہش کے مطابق ایران اسرائیل کی ابادیوں پر حملہ کر دے پھر اسرائیل ایک لمحہ نہیں لگائے گا اور وہ اپنے تمام راکٹس فائر کرکے غزہ سمیت پورے فلسطین کو ہی تباہ کر کے رکھ دے گا اور مظلوم بھی بن جائے کہ دیکھیں جی ایران نے ہمارے ساتھ یہ کیا تو ہمیں مجبورا یہ قدم اٹھانا پڑا ہے اس پر یہ کہ تمام مسلمان ممالک الٹا ایران کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ ایران ایسا نہ کرتا تو فلسطینیوں کو اتنے بڑے نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔۔۔رہی دوسری بات کہ اسرائیل کے ساتھ مصر کی طرح ایران کا بارڈر نہیں لگتا جو غزہ میں ہونے والے ظلم کو آہنی ہاتھوں سے روک سکے۔ہاں البتہ اس وقت اسرائیل دنیا میں مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے کہ اس کے ہاں انسانیت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اسی نفرت کی وجہ سے پوری دنیا میں یہودیوں کے کاروبار(جس کی وجہ سے یہودی پوری دنیا پہ حکمرانی کر رہے ہیں) تباہ ہو رہے ہیں۔
ٓ آج اگر مسلمان ممالک اس بات پہ متفق ہو جائیں کہ ہم کوئی بھی یہودی پروڈکٹ استعمال نہیں کریں گے تو نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا سے یہودیوں کی اجارہ داری ختم ہو کر رہ جائے۔۔۔لیکن افسوس کہ ہم صرف دوسروں پر تنقید کے لیے بیٹھے ہیں جو ہم سے یہاں بیٹھ کر ہو سکتا ہے وہ بھی ہم نہیں کرتے۔ خدا عالم اسلام کو شعور سے نوازے اور فلسطینیوں پر ہونے والی ظلم و بربریت کا جلد از جلد خاتمہ فرمائے ۔